Neel Ahmed

نیل احمد

نیل احمد کی نظم

    خودی کا راز

    میری ہر فکر میں طوفان کی طغیانی ہے اور مرے شوق میں جذبوں کی فراوانی ہے یوں جنوں بہتا ہے دریا کی روانی جیسے اور مری سوچ میں پلتی ہے کہانی جیسے میں نے تو ہمت مردان خدا سیکھی ہے میں نے ٹوٹے ہوئے لہجوں کی دعا سیکھی ہے میں نے ہر رنگ کی خوشبو کی ادا سیکھی ہے میں نے ہر ظاہر و باطل کا ...

    مزید پڑھیے

    لا علمی

    مرے کمرے کی الماری بھری ہے جن کتابوں سے میں ان کو روز پڑھتی ہوں میں لفظوں میں چھپی ترغیب کے لہجے سمجھتی ہوں کھبی کچھ لائینوں کے درمیاں موجود مطلب کو ورق پہ لکھ کے اپنے پاس یوں محفوظ کرتی ہوں کہ جیسے ماہیت لفظوں کی ساری جان لی میں نے ذرا سا غور کرنے پر حقیقت یوں کھلی مجھ پر کہ جو ...

    مزید پڑھیے

    گڑیا

    کھلونا تو نہیں ہوں میں نا مٹی کا کوئی بت ہوں کہ جب تم ہاتھ کو موڑو نہیں ہوگی مجھے تکلیف کہ جب تم آنکھ کو پھوڑو تو چیخیں بھی نہ نکلیں گی بنا سوچے بنا دیکھے مری شادی کسی گڈے سے کر دو گے مرے سر میں کسی بھی نام کا سندور بھر دو گے مجھے مجھ سے بنا پوچھے مجھی سے دور کر دو گے سنو یہ جان لو تم ...

    مزید پڑھیے

    اجڑا سا جزیرہ

    زخم جیسے کہ زباں رکھتے ہیں رات بھر حال سناتے ہیں مجھے جاگتے رہتے ہیں سارے مرے کمرے کے چراغ درد میرا بانٹتے ہیں یک بہ یک دل میں اتر آتا ہے کوئی اجڑا سا جزیرہ اور پھر سسکیاں شور مچاتی ہیں ہواؤں کی طرح اور بڑھتی ہے تری یاد کی شدت مجھ میں غم کا ادراک مرے ہوش بھلا دیتا ہے کچھ بگولے مرے ...

    مزید پڑھیے

    آئیڈیلزم

    وہ بھی دل ہے کہ پتھر میں خدا ڈھونڈھتا ہے یہ بھی کافر ہے کہ پتھر ہی جدا ڈھونڈھتا ہے

    مزید پڑھیے

    وجود کرب سے آگے

    میں جوہر پر مقدم ہوں مرے پاؤں کی بیڑی یہ زمانہ بن نہیں سکتا نہ ہی محدود ہوں اور ناگہانی بھی نہیں ہوں میں مقدر تھا مرا ماضی مگر میں حال، مستقبل کا سودا سر میں رکھتی ہوں میں ہی تو مرکزی کردار ہوں اپنی کہانی کا اساسی کچھ نہیں ہے منطقی نا جوہری کچھ ہے میں خود میں ڈوب کر تشکیل نو کرتی ...

    مزید پڑھیے

    چنگاریوں کا رقص

    بجھانا بھول جاتی ہوں میں یادوں کے چراغوں کو میں کھڑکی کھول دیتی ہوں کھبی جب اپنے خوابوں کی ہوائیں سرسراتی ہیں تو لو بھی تھرتھراتی ہے چراغوں کی مرے کمرے میں جو چنگاریاں سی رقص کرتیں ہیں مری سوچوں کی تصویروں کو پیہم عکس کرتیں ہیں

    مزید پڑھیے

    چیونٹیاں

    سرمئی رات میں اپنے خوابوں کو دیوار پر مار کر پہلے توڑا پھر اس کی سبھی کرچیاں اپنے دامن میں بھر کے سمندر کی موجوں میں ڈال آئے ہم تھوڑی ہلچل ہوئی دائرے دائرے سے بکھرنے لگے نقش چھوڑے بنا خوشبوؤں کی طرح خواہشیں ڈوب کر ایسے مرتیں رہیں جیسے مرتی ہیں پیروں تلے چیونٹیاں

    مزید پڑھیے

    ہوس

    بظاہر خوبصورت ہیں تکلم کا طریقہ بھی بہت عمدہ سا ان کا بدن پر ڈال کر پوشاک مہنگے دام والی وہ سمجھتے ہیں نگاہوں کی ہوس بھی ڈھانپ لی ہم نے مگر وہ جانتے کب ہیں ہوس کا جسم ننگا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3