ناصرہ زبیری کے تمام مواد

19 غزل (Ghazal)

    کبھی کانٹوں نے یوں چھیلی ہوائیں

    کبھی کانٹوں نے یوں چھیلی ہوائیں ہوئیں کچھ اور نوکیلی ہوائیں سنہری دھوپ اوڑھے ناچتی ہیں مرے آنگن میں چمکیلی ہوائیں مری چنری سجاتی ہیں دھنک سے گلابی کاسنی نیلی ہوائیں عجب ہے پھولتی سرسوں کا جادو ہرے رستے چلیں پیلی ہوائیں شمالی کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں دسمبر کی یہ برفیلی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شے یہ نگر کھونے چلا ہے

    کوئی شے یہ نگر کھونے چلا ہے یہاں پر کچھ نہ کچھ ہونے چلا ہے کوئی روکے انہیں محفوظ کر لے مرا قاتل نشاں دھونے چلا ہے دلوں میں خوف بڑھتے جا رہے ہیں نہ جانے کیا سے کیا ہونے چلا ہے نہیں پگھلی اگرچہ موم ہوں میں وہ پتھر ہے مگر رونے چلا ہے خدایا فصل یہ کٹنے نہ پائے وہ کانٹے راہ میں بونے ...

    مزید پڑھیے

    کاغذی کشتی کی آمد کا اشارہ مل گیا

    کاغذی کشتی کی آمد کا اشارہ مل گیا ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا مل گیا ہو گیا شامل غرض کا رنگ موج عشق میں جھیل کے نتھرے ہوئے پانی میں گارا مل گیا گھل گئی بیتابیٔ دل وقت کے محلول میں ضبط کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پارہ مل گیا دل کے کاروبار میں حاصل کی کوئی شرط ہے مل گیا اس راہ میں جس کو ...

    مزید پڑھیے

    دل کے بھید کو پائے کون

    دل کے بھید کو پائے کون یہ پتھر پگھلائے کون کون لگائے خود کو آگ دیپک راگ سنائے کون اجڑی بستی کے رستے جز آسیب بسائے کون جن کا ایندھن دل کا خوں ایسے دیپ جلائے کون یہ منزل آسان نہیں اپنی راہ بنائے کون کچھ تو ہے اس وحشت میں ورنہ پتھر کھائے کون پاگل ہے دل تیرے لیے پاگل کو سمجھائے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے بچنے کی لوگو سبیل کوئی نہیں

    ہمارے بچنے کی لوگو سبیل کوئی نہیں تمام شہر ہے منصف وکیل کوئی نہیں نہیں ہے یاد مسافت کا کچھ حساب مجھے رہ طلب میں مری سنگ میل کوئی نہیں اسے یقین کہ وہ کائنات میں تنہا مجھے یہ زعم کہ میری مثیل کوئی نہیں نہیں ہے کوئی ضمانت مرے تحفظ کی قلعہ ہوں ایسا کہ جس کی فصیل کوئی نہیں یہ اور ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    آج کے منافق

    دلوں میں کفر لبوں پر حمایت اسلام چھری بغل میں دبائے ہوئے ہیں منہ پر رام مکالمہ ہے جنوں سے تو عقل سے بھی کلام لبوں پہ نعرۂ تحسین ذہن میں دشنام یہ خواہشوں کے پجاری یہ مصلحت کے غلام فریب و مکر کے قصے منافقت کے نام کہیں بہ نام خوشامد یہ بک گئے بے دام کہیں پہ بولی تھی اونچی تو ہو گئے ...

    مزید پڑھیے

    پاسورڈ

    محبت کے نگر میں سرخ پھولوں سے مہکتے سبز موسم کی نویلی خواہشوں میں بھیگتے سرشار جذبوں سے نکلتی آبشاروں میں گھری وادی کے اندر داخلے کے واسطے در کھولنے کا اسم اعظم ہے وہی اک نام تیرا نام تیرا نام

    مزید پڑھیے

    بے نور کائنات میں اک کانچ کا چراغ

    بے نور کائنات میں اک کانچ کا چراغ کافی ہے شش جہات میں اک کانچ کا چراغ بجھتا ہے ٹوٹتا ہے کہ جلتا ہے راہ میں آندھی ہے اور ہاتھ میں اک کانچ کا چراغ تیری نظر سے جاگی ہوئی لو کے فیض سے روشن ہے میری ذات میں اک کانچ کا چراغ کٹتی ہے سخت راہ کی خاموش تیرگی جلتا ہے تیری بات میں اک کانچ کا ...

    مزید پڑھیے

    پتھر کی زنجیر

    کیسے چھیڑوں ہاتھوں سے میں چیخوں کا یہ ساز شاہی در پر کیا اپناؤں فریادی انداز جنبش کا احساس نہ کوئی مدھم سی آواز ٹھہرے لمحے کے قصے میں آخر نہ آغاز شورش گر آغاز کرے تو منصف کرے سوال پوچھے تو میں کھولوں سارے ظالم شب کے راز راز کھلیں تو شاید اپنی کھل جائے تقدیر لیکن بے حس عادل گھر ...

    مزید پڑھیے