آج کے منافق
دلوں میں کفر لبوں پر حمایت اسلام
چھری بغل میں دبائے ہوئے ہیں منہ پر رام
مکالمہ ہے جنوں سے تو عقل سے بھی کلام
لبوں پہ نعرۂ تحسین ذہن میں دشنام
یہ خواہشوں کے پجاری یہ مصلحت کے غلام
فریب و مکر کے قصے منافقت کے نام
کہیں بہ نام خوشامد یہ بک گئے بے دام
کہیں پہ بولی تھی اونچی تو ہو گئے نیلام
بہشت میں بھی طلب حور کا ملے انعام
زمین پر بھی مراعات کے لٹائیں جام
ہر اک صدا پہ ہوں حاضر ہر ایک کے خدام
غرض کے بندے مفادات کے اسیر دوام
یہ بھیجتے ہیں فقط آج کے لیے پیغام
جو فکر فردا سے کچھ ہے انہیں تو بس یہ کام
ہو خیر و شر کی لڑائی کا جانے کیا انجام
نہ جانے کس کو ملے جیت کون ہو ناکام
بنی رہے جو سبھی سے بنا رہے گا کام
یزید سے بھی تعلق حسین کو بھی سلام