ناصرہ زبیری کی نظم

    آج کے منافق

    دلوں میں کفر لبوں پر حمایت اسلام چھری بغل میں دبائے ہوئے ہیں منہ پر رام مکالمہ ہے جنوں سے تو عقل سے بھی کلام لبوں پہ نعرۂ تحسین ذہن میں دشنام یہ خواہشوں کے پجاری یہ مصلحت کے غلام فریب و مکر کے قصے منافقت کے نام کہیں بہ نام خوشامد یہ بک گئے بے دام کہیں پہ بولی تھی اونچی تو ہو گئے ...

    مزید پڑھیے

    پاسورڈ

    محبت کے نگر میں سرخ پھولوں سے مہکتے سبز موسم کی نویلی خواہشوں میں بھیگتے سرشار جذبوں سے نکلتی آبشاروں میں گھری وادی کے اندر داخلے کے واسطے در کھولنے کا اسم اعظم ہے وہی اک نام تیرا نام تیرا نام

    مزید پڑھیے

    بے نور کائنات میں اک کانچ کا چراغ

    بے نور کائنات میں اک کانچ کا چراغ کافی ہے شش جہات میں اک کانچ کا چراغ بجھتا ہے ٹوٹتا ہے کہ جلتا ہے راہ میں آندھی ہے اور ہاتھ میں اک کانچ کا چراغ تیری نظر سے جاگی ہوئی لو کے فیض سے روشن ہے میری ذات میں اک کانچ کا چراغ کٹتی ہے سخت راہ کی خاموش تیرگی جلتا ہے تیری بات میں اک کانچ کا ...

    مزید پڑھیے

    پتھر کی زنجیر

    کیسے چھیڑوں ہاتھوں سے میں چیخوں کا یہ ساز شاہی در پر کیا اپناؤں فریادی انداز جنبش کا احساس نہ کوئی مدھم سی آواز ٹھہرے لمحے کے قصے میں آخر نہ آغاز شورش گر آغاز کرے تو منصف کرے سوال پوچھے تو میں کھولوں سارے ظالم شب کے راز راز کھلیں تو شاید اپنی کھل جائے تقدیر لیکن بے حس عادل گھر ...

    مزید پڑھیے