بے نور کائنات میں اک کانچ کا چراغ

بے نور کائنات میں اک کانچ کا چراغ
کافی ہے شش جہات میں اک کانچ کا چراغ


بجھتا ہے ٹوٹتا ہے کہ جلتا ہے راہ میں
آندھی ہے اور ہاتھ میں اک کانچ کا چراغ


تیری نظر سے جاگی ہوئی لو کے فیض سے
روشن ہے میری ذات میں اک کانچ کا چراغ


کٹتی ہے سخت راہ کی خاموش تیرگی
جلتا ہے تیری بات میں اک کانچ کا چراغ


کہتے ہیں رات بھر کوئی نا بینا شہر میں
پھرتا تھا لے کے ہاتھ میں اک کانچ کا چراغ


تاروں کی روشنی کا ذخیرہ سمیٹ کر
اس نے دیا زکوٰۃ میں اک کانچ کا چراغ


پتھر کی سازشوں سے بچا تھا تو لٹ گیا
آندھی کی واردات میں اک کانچ کا چراغ


شعلوں کے اور کرچیوں کے زخم تھام کر
بیٹھا ہے میری گھات میں اک کانچ کا چراغ


میری کمین گاہ کی دشمن کو دے خبر
شامل ہے میری مات میں اک کانچ کا چراغ


سوتا رہے گا چین کی یہ نیند شام تک
تھا بے قرار رات میں اک کانچ کا چراغ


مل کر منا رہے ہیں کسی رت جگے کی یاد
آنکھیں ہماری ساتھ میں اک کانچ کا چراغ


اندھے سفر میں سو طرح سے کام آ گیا
ہر خوف سے نجات میں اک کانچ کا چراغ