کاغذی کشتی کی آمد کا اشارہ مل گیا

کاغذی کشتی کی آمد کا اشارہ مل گیا
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا مل گیا


ہو گیا شامل غرض کا رنگ موج عشق میں
جھیل کے نتھرے ہوئے پانی میں گارا مل گیا


گھل گئی بیتابیٔ دل وقت کے محلول میں
ضبط کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پارہ مل گیا


دل کے کاروبار میں حاصل کی کوئی شرط ہے
مل گیا اس راہ میں جس کو خسارہ مل گیا


نا مکمل خواہشوں کا درد کھو دینے کے بعد
یوں ہوا پھر وہ مجھے سارے کا سارا مل گیا


رکھ چکا ہے رہن وہ پہلے ہی اپنی روشنی
کس ستارے سے مرے دل کا ستارہ مل گیا


خود لٹا کر چھوڑ آئے جس کی خاطر کارواں
رہزنوں کے ساتھ وہ رہبر ہمارا مل گیا


کھو گیا وہ کس طرح جس کو کبھی پایا نہیں
جس کو پایا ہی نہیں کیسے دوبارہ مل گیا


سبز پرچم کو ملی آزاد موسم کی ہوا
ہم کو اپنی سر زمیں کا چاند تارہ مل گیا