خوشا یہ ظرف کہ ہونٹوں پہ ہے تبسم بھی
خوشا یہ ظرف کہ ہونٹوں پہ ہے تبسم بھی لئے ہوئے ہیں تہ چشم سیل قلزم بھی یہ انقلاب محبت یہ اجتناب ترا ہے ناگوار نگاہوں کا اک تصادم بھی اسی چمن میں ہیں ایسے ہزار ہا غنچے نصیب ہو نہ سکا جن کو اک تبسم بھی یہ کیا ضرور کہ اس نے کیا ہو یاد مگر کبھی کبھی تو مزہ دے گیا توہم بھی ہے ترجمان ...