تو خود کہاں ہے قافلۂ سالار دیکھنا
تو خود کہاں ہے قافلۂ سالار دیکھنا
اب ہم کہاں ہیں عالم رفتار دیکھنا
ہم چل پڑے ہیں منزل مقصود کے لئے
اب سنگ دیکھنا ہے نہ دیوار دیکھنا
تزئین گلستاں سے نہیں واسطہ جنہیں
ان کے گھروں میں پھول کے انبار دیکھنا
جب اذن عرض حال دیا ہے تو چپ رہو
اب ناروا ہے تلخیٔ گفتار دیکھنا
اے باغباں نہ دیکھ حقارت سے اس طرح
جب ہم نہ ہوں تو عالم گلزار دیکھنا
آئے تو کوئی معرکۂ حشر سامنے
اہل جنوں کا جذبۂ ایثار دیکھنا
ادنیٰ سمجھ رہے ہو ہماری بساط کو
یارو ثبات عزم سر دار دیکھنا
سو بار میں نے ان کو پکارا ہے اے نصیرؔ
گزرا بہت گراں انہیں اک بار دیکھنا