فروغ ظلمت شب تک ہی جگمگائیں گے
فروغ ظلمت شب تک ہی جگمگائیں گے
سحر ہوئی تو ستارے نظر نہ آئیں گے
دوام صرف حقیقت کو ہے زمانے میں
جو داستاں ہے اسے لوگ بھول جائیں گے
بھٹک رہے ہیں جو منزل کی جستجو میں ابھی
وہی سفر کے نئے زاویے بنائیں گے
حریف موج و تلاطم ہوں سب یہ نا ممکن
نحیف ہیں جو سفینے وہ ڈوب جائیں گے
ہمارے ذہن ابھی اتنے نکتہ رس ہیں کہاں
تری نظر کے اشارے سمجھ نہ پائیں گے
جفا سے ان کی جو ترتیب پا رہی ہے ابھی
وہ داستاں بھی سر انجمن سنائیں گے
نصیرؔ ترک تعلق ہی ان سے بہتر ہے
وفا کے نام پہ کب تک فریب کھائیں گے