بھٹک رہے ہیں بھٹکتے رہیں گے فرزانے
بھٹک رہے ہیں بھٹکتے رہیں گے فرزانے
قریب آ گئے منزل کے تیرے دیوانے
بہت قریب تھے جلوے انہیں نہ پہچانے
کہاں گیا تھا شعور نظر خدا جانے
زباں پہ حرف تمنا نہ آئے کیا پروا
سمٹ کے آ گئے نظروں میں دل کے ویرانے
حضور حسن جو آئے ہیں بہر عرض مراد
انہیں سناؤ مری خامشی کے افسانے
گزر گئی مری روداد غم میں رات تمام
پھر اس کے بعد نہ شمعیں جلیں نہ پروانے
تلاش کوچۂ جاناں ارے معاذ اللہ
خود اپنی گرد میں کھوئے ہوئے ہیں دیوانے
نصیرؔ ان کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آیا
جو آ رہے ہیں مجھے راز عشق سمجھانے