جو کسی پر نہ ہوا ہو وہ ستم ہو تو کہو
جو کسی پر نہ ہوا ہو وہ ستم ہو تو کہو
اب نرالا کوئی افسانۂ غم ہو تو کہو
رہنما جب نہ مرا نقش قدم ہو تو کہو
میری رفتار کہیں راہ میں کم ہو تو کہو
شرح اندوہ محبت پہ تبسم کیسا
یہ کوئی زاویۂ لطف و کرم ہو تو کہو
ہر جفا غم ہے مرے ظرف کی پہنائی میں
میرے ہونٹوں پہ کبھی ذکر ستم ہو تو کہو
میں نے ہر زخم بہاراں کو چھپا رکھا ہے
مجھ سے مجروح گلستاں کا بھرم ہو تو کہو
ان کی تخلیق الگ اور مری فکر جدا
ان کا میرا کوئی انداز بہم ہو تو کہو
لکھ رہا ہے کوئی پر کیف غزل آج نصیرؔ
بد نما لفظ کوئی زیر قلم ہو تو کہو