کلی کلی کو دیا باغباں لہو ہم نے
کلی کلی کو دیا باغباں لہو ہم نے
کیا ہے تجھ کو گلستاں میں سرخ رو ہم نے
خدا کے واسطے اس بے وفا کا نام نہ لو
کیا ہے چاک گریباں ابھی رفو ہم نے
خزاں کے داغ مٹے کب گلوں کے دامن سے
تجھے بھی دیکھ لیا موسم نمو ہم نے
خموش رہ کے ترے تند و تلخ لہجے پر
بدل دیا ترا انداز گفتگو ہم نے
چمن کا رنگ نکھرتا ہے جس کے پرتو سے
بکھیر دی وہ تجلی بھی چار سو ہم نے
سمجھ نہ پائے وہ اب تک قبول و رد کیسا
عجیب رنگ میں کی شرح آرزو ہم نے
نصیرؔ خام ہے اب بھی خیال توبہ کا
فضول توڑ دئے ساغر و سبو ہم نے