خام ہے میری محبت ورنہ یہ عالم نہ ہو
خام ہے میری محبت ورنہ یہ عالم نہ ہو
وہ خلش بھی کیا خلش ہے دل میں جو پیہم نہ ہو
راز سر بستہ نہ کھل جائے ہنسی کے بعد بھی
ان کی محفل میں کوئی فطرت شناس غم نہ ہو
دے سکے اب تک نہ دستور وفا ترتیب تم
کیا رکے دیوار جب بنیاد مستحکم نہ ہو
جاتے جاتے بزم اہل غم پہ ہو یہ بھی کرم
آپ اس انداز سے اٹھیں کہ یہ برہم نہ ہو
کون کھوئے ظرف اپنا ورنہ اے پیر مغاں
میرے ساغر میں بھی مے ذوق طلب سے کم نہ ہو
جب بھی آئے زخم دل کو اور تازہ کر گئے
ایسے غم خواروں سے بہتر ہے کوئی ہمدم نہ ہو
اس گماں کو بھی نظر انداز کر سکتے نہیں
منتہائے ارتقا بربادئ عالم نہ ہو