Naseer Ahmad Nasir

نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر کی غزل

    جو نہیں اس جہاں روتے ہیں

    جو نہیں اس جہاں روتے ہیں حاصل رائیگاں کو روتے ہیں دکھ زمیں کا تو بانٹ سکتے نہیں اور زمان و مکاں کو روتے ہیں ریزہ ریزہ پڑا ہے آنکھوں میں غم کے کوہ گراں کو روتے ہیں دل گرفتہ خموش راتوں میں شور ہائے سگاں کو روتے ہیں موسموں کی بہار میں ہم سب اپنی اپنی خزاں کو روتے ہیں جا نکلتے ...

    مزید پڑھیے

    چھاؤں پیتی ہے دھوپ کھاتی ہے

    چھاؤں پیتی ہے دھوپ کھاتی ہے شب سدا کی چڑیل جاتی ہے اک ستارے پہ آن بیٹھے ہیں ہاتھ میں چاند کی چپاتی ہے اور کچھ ہو نہ ہو زمانے میں ایک دائم سی بے ثباتی ہے میرے دکھ درد گو زمینی ہیں میری تنہائی کائناتی ہے جھیل کو تیرنا نہیں آتا اپنے پانی میں ڈوب جاتی ہے دیکھ کر گھر کی حالت ...

    مزید پڑھیے

    چھجے ہیں سائبان ہیں آگے بڑھے ہوئے

    چھجے ہیں سائبان ہیں آگے بڑھے ہوئے گلیوں کے سب مکان ہیں آگے بڑھے ہوئے پس ماندگی عوام کے پیچھے پڑی ہوئی دو چار خاندان ہیں آگے بڑھے ہوئے رستہ تو رک گیا ہے سر منزل گماں قدموں کے کچھ نشان ہیں آگے بڑھے ہوئے گھیرا ہوا ہے چاروں طرف سے زمین کو حد سے یہ آسمان ہیں آگے بڑھے ہوئے خود چل کے ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو

    میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو ہے کون سا وہ پھول کہ باغوں میں نہیں جو ہوتی ہے کسی دیدۂ نمناک کی لو سے وہ روشنی کیسی ہے چراغوں میں نہیں جو دیکھو نہ مرا جسم مری روح جلی تھی یہ داغ ہے وہ جلد کے داغوں میں نہیں جو پانی میں زمینوں پہ ہوا میں اسے کھوجا وہ کیسا نشاں ہے کہ سراغوں ...

    مزید پڑھیے

    طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے

    طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے لے گئی تیز ہوا غم کی اڑا کر چہرے جن کے ہونٹوں پہ طرب خیز ہنسی ہوتی ہے وہ بھی روتے ہیں کتابوں میں چھپا کر چہرے کرب کی زرد تکونوں میں کئی ترچھے خطوط کس قدر خوش تھا میں کاغذ پہ بنا کر چہرے مو قلم لے کے مرے شہر کی دیواروں پر کس نے لکھا ہے ترا نام ...

    مزید پڑھیے

    درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی

    درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی جاگتی آنکھوں میں خوابوں کی تھکن باقی رہی پانیوں کا جسم سہلاتی رہی پروا مگر ٹوٹتے بنتے حبابوں کی تھکن باقی رہی دید کی آسودگی میں کون کیسے دیکھتا درمیاں کتنے حجابوں کی تھکن باقی رہی فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے درس گاہوں میں نصابوں ...

    مزید پڑھیے

    مال اٹھا اور دکان خالی کر

    مال اٹھا اور دکان خالی کر یہ زمان و مکان خالی کر جا کہیں اور کر شکار اپنا چھوڑ جنگل مچان خالی کر جا کنارے پہ جا کے بیٹھ کہیں اے ہوا بادبان خالی کر اب کسی اور کو بھی باری دے اے پرندے اڑان خالی کر روشنی کے لئے جگہ تو بنا رات کا درمیان خالی کر منتظر ہیں امیدوار نئے کمرۂ امتحان ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ شام سے نکلا ہوا ہے

    ستارہ شام سے نکلا ہوا ہے دیا بھی طاق میں رکھا ہوا ہے کہیں وہ رات بھی مہکی ہوئی ہے کہیں وہ چاند بھی چمکا ہوا ہے ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے کسی بادل کو چھو کر آ رہی ہے ہوا کا پیرہن بھیگا ہوا ہے زمیں بے عکس ہو کر رہ گئی ہے فلک کا آئنہ میلا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    عکس ٹوٹا ہے بارہا میرا

    عکس ٹوٹا ہے بارہا میرا سنگ خارا ہے آئنہ میرا ساری دنیا مری مخالف ہے ایک بچہ ہے ہم نوا میرا تیز بارش کا میں پرندہ ہوں بادلوں میں ہے گھونسلہ میرا گھر میں مہماں ہوئی ہے تنہائی بھر گیا ہے برآمدہ میرا دو چراغوں سے رات روشن ہے ایک تیرا ہے دوسرا میرا اوپر اوپر سے ٹھیک لگتا ہے زخم ...

    مزید پڑھیے

    شب کی پہنائیوں میں چیخ اٹھے

    شب کی پہنائیوں میں چیخ اٹھے درد تنہائیوں میں چیخ اٹھے تہ بہ تہ منجمد تھکن جاگی جسم انگڑائیوں میں چیخ اٹھے دھوپ جب آئینہ بدست آئی عکس بینائیوں میں چیخ اٹھے میں سمندر ہوں کوئی تو سیپی میری گہرائیوں میں چیخ اٹھے رت جگے تن گئے دریچوں پر خواب انگنائیوں میں چیخ اٹھے جب پہاڑوں پہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2