چھاؤں پیتی ہے دھوپ کھاتی ہے
چھاؤں پیتی ہے دھوپ کھاتی ہے
شب سدا کی چڑیل جاتی ہے
اک ستارے پہ آن بیٹھے ہیں
ہاتھ میں چاند کی چپاتی ہے
اور کچھ ہو نہ ہو زمانے میں
ایک دائم سی بے ثباتی ہے
میرے دکھ درد گو زمینی ہیں
میری تنہائی کائناتی ہے
جھیل کو تیرنا نہیں آتا
اپنے پانی میں ڈوب جاتی ہے
دیکھ کر گھر کی حالت خستہ
میری تصویر مسکراتی ہے
ایک نلکی مہین دھاگے کی
دست خیاط کو گھماتی ہے
جینے مرنے سے باز آتے نہیں
اپنی فطرت ہی وارداتی ہے
زندگی کتنی اچھی ٹیچر ہے
زندگی بھر سبق سکھاتی ہے
اب پرندوں کو کون سمجھائے
شاخ چھتنار کٹ بھی جاتی ہے
چلنے لگتا ہے راستہ مجھ میں
میری بچی قدم اٹھاتی ہے
اب تو ہونے سے کچھ نہیں ہوتا
اب تو ہونا بھی نفسیاتی ہے
دست تاریخ سے نکلتے ہی
جنگ ذہنوں میں پھیل جاتی ہے
آتے آتے بھی شاعری ناصرؔ
اک زمانے کے بعد آتی ہے