Naseer Ahmad Nasir

نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر کی نظم

    تاریخ ٹسوے بہائے گی

    تم سر بام آ کر اٹھایا ہوا ہاتھ اپنا ہلا کر چمک دار آنکھوں سے اپنی مجھے رخصتی کا اگر اذن دیتیں تو میں دشمنوں کے لیے موت بن کر نکلتا تمہارے فقط اک اشارے سے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا تم دیکھتیں کس طرح میں زمانے کی سرحد ذرا دیر میں پار کرتا ہر اک سمت سے وار کرتا محبت کی تاریخ تبدیل ...

    مزید پڑھیے

    ایک ضبط شدہ پوسٹر

    خواب ہماری گلیوں کے گندے پانی پر مچھر مار دوائیں ہیں باورچی خانوں میں آٹے گھی اور تیل کے خالی ڈبے آنے والی نسلوں کی آنکھیں ہیں بھوک ہمارے آنگن کی رقاصہ ہے پیاس ہمارا تاریخی ورثہ ہے تحریریں پڑھنے والو! لفظ نصابوں کے قیدی ہیں تعبیریں ڈھونڈنے والو! ہم سب ان دیکھے خوابوں کے قیدی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اک خواب لکھنا ہے

    مجھے اک خواب لکھنا ہے کہیں اسکول سے بھاگے کسی بچے کی تختی پر مجھے اک چاند لکھنا ہے سواد شام سے گہری سیہ عورت کے ماتھے پر مجھے اک گیت لکھنا ہے گھنے بانسوں کے جنگل میں ہوا کے سرد ہونٹوں پر مجھے ایک نام لکھنا ہے پرانی یاد گاروں میں کسی بے نام کتبے پر

    مزید پڑھیے

    وہ دن تیری یاد کا دن تھا

    وہ دن تیری یاد کا دن تھا اس دن میں بھول گیا سانسیں لینا لمحے ڈھونا باتیں کرنا کھل کھل ہنسنا چھپ کر رونا لکھنا پڑھنا جاگنا سونا وہ دن تیری یاد کا دن تھا اس دن میں بھول گیا جینا مرنا کچھ بھی کرنا!

    مزید پڑھیے

    تم نے اسے کہاں دیکھا ہے

    کبھی تم نے دیکھا ہے خوابوں سے آگے کا منظر جہاں چاند تاروں سے روٹھی ہوئی رات اپنے برہنہ بدن پر سیہ راکھ مل کر الاؤ کے چاروں طرف ناچتی ہے! کبھی تم نے جھانکا ہے پلکوں کے پیچھے تھکی نیلی آنکھوں کے اندر جہاں آسمانوں کی ساری اداسی خلا در خلا تیرتی ہے کبھی تم نے اک دن گزارا ہے رستوں کے ...

    مزید پڑھیے

    عرابچی سو گیا ہے

    عرابچی سو گیا ہے طولانی فاصلوں کی تھکن سے مغلوب ہو گیا ہے خبر نہیں ہے اسے کہاں ہے بس ایک لمبے کٹے پھٹے ناتراش رستے پہ چوبی گاڑی ازل سے یوں ہی ابد کی جانب رواں دواں ہے ذرا سے جھٹکے سے چرچراتی ہے جب تو بوسیدگی کی لاکھوں تہوں میں لپٹا ہر ایک ذی روح چونکتا ہے عرابچی خواب دیکھتا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    گنبدوں کے درمیاں

    خواہشیں دیوار گریہ پر خوشی کے گیت ہیں راستے اچھے دنوں کے خواب ہیں لیکن ہمیشہ منزلوں سے دور رہتے ہیں لکیریں دائروں میں قید ہیں چلتے رہو! ریگزاروں کے سفر کا انت پانی ہے سرابوں کے تعاقب میں کبھی نکلو تو آنکھوں کے سمندر ساتھ رکھنا کانچ خاموشی کے جنگل سے کبھی گزرو تو آوازوں کے پتھر ...

    مزید پڑھیے

    ایک ساحلی دن

    سمندر بے کرانی کا انوکھا سلسلہ ہے آسماں بھی اپنے نیلے پن سے اکتایا ہوا ہے پانیوں پر چلتے چلتے نم ہوا کے پاؤں بھی شل ہو چکے ہیں بادباں سونے لگے ہیں ساحلوں پر آفتابی غسل کرتی لڑکیاں بھی لوٹ کر اپنے گھروں کو جا چکی ہیں ریت پر پھیلے ہوئے ہیں ان کے قدموں کے نشاں جسموں کی ننگی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے قاتل کے لیے ایک نظم

    اگر میرے سینے میں خنجر اتارو تو یہ سوچ لینا ہوا کا کوئی جسم ہوتا نہیں ہے ہوا تو روانی ہے عمروں کے بہتے سمندر کی لمبی کہانی ہے آغاز جس کا نہ انجام جس کا اگر میرے سینے میں خنجر اتارو تو یہ سوچ لینا ہوا موت سے ماورا ہے ہوا ماں کے ہاتھوں کی تھپکی ہوا لوریوں کی صدا ہے ہوا ننھے بچوں کے ...

    مزید پڑھیے

    بے خوابی کی آکاس بیل پر کھلی خواہش

    مجھ کو سونے دو صدیوں جیسی گہری لمبی نیند جس میں کوئی خواب نہ ہو مجھ کو سونے دو اس لڑکی کی نیند جو اپنی آنکھیں میری آنکھوں میں رکھ کر بھول گئی ہے! مجھ کو سونے دو ان لوگوں کی نیند جن کی آنکھوں میں بادل اور پرندے اڑتے ہیں دریا بہتے ہیں لیکن وہ پیاسے رہتے ہیں مجھ کو سونے دو چاروں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2