تاریخ ٹسوے بہائے گی
تم سر بام آ کر اٹھایا ہوا ہاتھ اپنا ہلا کر چمک دار آنکھوں سے اپنی مجھے رخصتی کا اگر اذن دیتیں تو میں دشمنوں کے لیے موت بن کر نکلتا تمہارے فقط اک اشارے سے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا تم دیکھتیں کس طرح میں زمانے کی سرحد ذرا دیر میں پار کرتا ہر اک سمت سے وار کرتا محبت کی تاریخ تبدیل ...