ریگ ہستی کا استعارہ بن
ریگ ہستی کا استعارہ بن اے سمندر کبھی کنارہ بن یوم وارفتگی منا اک دن رقص کرتے ہوئے شرارہ بن اپنی مرضی کی شکل دے خود کو خود کو سارا مٹا دوبارہ بن چھوڑ باقی تمام سازوں کو بس محبت کا ایک تارا بن پھول بن کر دکھا زمانے کو سنگ مرمر نہ سنگ خارا بن ایک دھاگے سے باندھ لے خود کو ہلکا ...