Naseer Ahmad Nasir

نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر کی غزل

    ریگ ہستی کا استعارہ بن

    ریگ ہستی کا استعارہ بن اے سمندر کبھی کنارہ بن یوم وارفتگی منا اک دن رقص کرتے ہوئے شرارہ بن اپنی مرضی کی شکل دے خود کو خود کو سارا مٹا دوبارہ بن چھوڑ باقی تمام سازوں کو بس محبت کا ایک تارا بن پھول بن کر دکھا زمانے کو سنگ مرمر نہ سنگ خارا بن ایک دھاگے سے باندھ لے خود کو ہلکا ...

    مزید پڑھیے

    خلا کے درمیانی موسموں میں

    خلا کے درمیانی موسموں میں زمیں ہے آسمانی موسموں میں ملیں گے خاک زادے روشنی سے ابد کے کہکشانی موسموں میں ہوائیں پھول خوشبو دھوپ بارش کسی کی ہر نشانی موسموں میں محبت کے ٹھکانے ڈھونڈھتی ہے بدن کی لا مکانی موسموں میں انوکھے ذائقے سلگا رہی ہے لہو کی آگ پانی موسموں میں سمندر ...

    مزید پڑھیے

    سنگ خارا ہے آئینہ میرا

    سنگ خارا ہے آئینہ میرا ایک بچہ ہے ہم نوا میرا بادلوں میں ہے گھونسلہ میرا بھر گیا ہے برآمدہ میرا ایک تیرا ہے دوسرا میرا زخم اندر سے ہے ہرا میرا سب کو معلوم ہے پتا میرا کون چکھے گا ذائقہ میرا حجرۂ ذات ہے کھلا میرا ٹوٹ جاتا ہے رابطہ میرا چلنے لگتا ہے نقش پا میرا سایہ سائے پہ آ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2