Naseer Ahmad Nasir

نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    جو نہیں اس جہاں روتے ہیں

    جو نہیں اس جہاں روتے ہیں حاصل رائیگاں کو روتے ہیں دکھ زمیں کا تو بانٹ سکتے نہیں اور زمان و مکاں کو روتے ہیں ریزہ ریزہ پڑا ہے آنکھوں میں غم کے کوہ گراں کو روتے ہیں دل گرفتہ خموش راتوں میں شور ہائے سگاں کو روتے ہیں موسموں کی بہار میں ہم سب اپنی اپنی خزاں کو روتے ہیں جا نکلتے ...

    مزید پڑھیے

    چھاؤں پیتی ہے دھوپ کھاتی ہے

    چھاؤں پیتی ہے دھوپ کھاتی ہے شب سدا کی چڑیل جاتی ہے اک ستارے پہ آن بیٹھے ہیں ہاتھ میں چاند کی چپاتی ہے اور کچھ ہو نہ ہو زمانے میں ایک دائم سی بے ثباتی ہے میرے دکھ درد گو زمینی ہیں میری تنہائی کائناتی ہے جھیل کو تیرنا نہیں آتا اپنے پانی میں ڈوب جاتی ہے دیکھ کر گھر کی حالت ...

    مزید پڑھیے

    چھجے ہیں سائبان ہیں آگے بڑھے ہوئے

    چھجے ہیں سائبان ہیں آگے بڑھے ہوئے گلیوں کے سب مکان ہیں آگے بڑھے ہوئے پس ماندگی عوام کے پیچھے پڑی ہوئی دو چار خاندان ہیں آگے بڑھے ہوئے رستہ تو رک گیا ہے سر منزل گماں قدموں کے کچھ نشان ہیں آگے بڑھے ہوئے گھیرا ہوا ہے چاروں طرف سے زمین کو حد سے یہ آسمان ہیں آگے بڑھے ہوئے خود چل کے ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو

    میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو ہے کون سا وہ پھول کہ باغوں میں نہیں جو ہوتی ہے کسی دیدۂ نمناک کی لو سے وہ روشنی کیسی ہے چراغوں میں نہیں جو دیکھو نہ مرا جسم مری روح جلی تھی یہ داغ ہے وہ جلد کے داغوں میں نہیں جو پانی میں زمینوں پہ ہوا میں اسے کھوجا وہ کیسا نشاں ہے کہ سراغوں ...

    مزید پڑھیے

    طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے

    طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے لے گئی تیز ہوا غم کی اڑا کر چہرے جن کے ہونٹوں پہ طرب خیز ہنسی ہوتی ہے وہ بھی روتے ہیں کتابوں میں چھپا کر چہرے کرب کی زرد تکونوں میں کئی ترچھے خطوط کس قدر خوش تھا میں کاغذ پہ بنا کر چہرے مو قلم لے کے مرے شہر کی دیواروں پر کس نے لکھا ہے ترا نام ...

    مزید پڑھیے

تمام

14 نظم (Nazm)

    تاریخ ٹسوے بہائے گی

    تم سر بام آ کر اٹھایا ہوا ہاتھ اپنا ہلا کر چمک دار آنکھوں سے اپنی مجھے رخصتی کا اگر اذن دیتیں تو میں دشمنوں کے لیے موت بن کر نکلتا تمہارے فقط اک اشارے سے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا تم دیکھتیں کس طرح میں زمانے کی سرحد ذرا دیر میں پار کرتا ہر اک سمت سے وار کرتا محبت کی تاریخ تبدیل ...

    مزید پڑھیے

    ایک ضبط شدہ پوسٹر

    خواب ہماری گلیوں کے گندے پانی پر مچھر مار دوائیں ہیں باورچی خانوں میں آٹے گھی اور تیل کے خالی ڈبے آنے والی نسلوں کی آنکھیں ہیں بھوک ہمارے آنگن کی رقاصہ ہے پیاس ہمارا تاریخی ورثہ ہے تحریریں پڑھنے والو! لفظ نصابوں کے قیدی ہیں تعبیریں ڈھونڈنے والو! ہم سب ان دیکھے خوابوں کے قیدی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اک خواب لکھنا ہے

    مجھے اک خواب لکھنا ہے کہیں اسکول سے بھاگے کسی بچے کی تختی پر مجھے اک چاند لکھنا ہے سواد شام سے گہری سیہ عورت کے ماتھے پر مجھے اک گیت لکھنا ہے گھنے بانسوں کے جنگل میں ہوا کے سرد ہونٹوں پر مجھے ایک نام لکھنا ہے پرانی یاد گاروں میں کسی بے نام کتبے پر

    مزید پڑھیے

    وہ دن تیری یاد کا دن تھا

    وہ دن تیری یاد کا دن تھا اس دن میں بھول گیا سانسیں لینا لمحے ڈھونا باتیں کرنا کھل کھل ہنسنا چھپ کر رونا لکھنا پڑھنا جاگنا سونا وہ دن تیری یاد کا دن تھا اس دن میں بھول گیا جینا مرنا کچھ بھی کرنا!

    مزید پڑھیے

    تم نے اسے کہاں دیکھا ہے

    کبھی تم نے دیکھا ہے خوابوں سے آگے کا منظر جہاں چاند تاروں سے روٹھی ہوئی رات اپنے برہنہ بدن پر سیہ راکھ مل کر الاؤ کے چاروں طرف ناچتی ہے! کبھی تم نے جھانکا ہے پلکوں کے پیچھے تھکی نیلی آنکھوں کے اندر جہاں آسمانوں کی ساری اداسی خلا در خلا تیرتی ہے کبھی تم نے اک دن گزارا ہے رستوں کے ...

    مزید پڑھیے

تمام