مال اٹھا اور دکان خالی کر

مال اٹھا اور دکان خالی کر
یہ زمان و مکان خالی کر


جا کہیں اور کر شکار اپنا
چھوڑ جنگل مچان خالی کر


جا کنارے پہ جا کے بیٹھ کہیں
اے ہوا بادبان خالی کر


اب کسی اور کو بھی باری دے
اے پرندے اڑان خالی کر


روشنی کے لئے جگہ تو بنا
رات کا درمیان خالی کر


منتظر ہیں امیدوار نئے
کمرۂ امتحان خالی کر


دھوپ ساری نکال اندر سے
جسم کا سائبان خالی کر


گیت کو اپنی لے میں اٹھنے دے
سر بدل اور تان خالی کر


کوئی اچھا سخن بھی لب پر لا
شور و شر سے زبان خالی کر


جانب کوہ چل تیقن سے
دشت وہم و گمان خالی کر


تیز رو ہیں مسافران عدم
راہ دے پائیدان خالی کر


آنے والے دنوں کا قصہ لکھ
سن چکی داستان خالی کر


گر چکی ہیں تمام دیواریں
اب تو ناصرؔ مکان خالی کر