جو نہیں اس جہاں روتے ہیں

جو نہیں اس جہاں روتے ہیں
حاصل رائیگاں کو روتے ہیں


دکھ زمیں کا تو بانٹ سکتے نہیں
اور زمان و مکاں کو روتے ہیں


ریزہ ریزہ پڑا ہے آنکھوں میں
غم کے کوہ گراں کو روتے ہیں


دل گرفتہ خموش راتوں میں
شور ہائے سگاں کو روتے ہیں


موسموں کی بہار میں ہم سب
اپنی اپنی خزاں کو روتے ہیں


جا نکلتے ہیں غم زمانوں میں
نیند میں رفتگاں کو روتے ہیں


وقت کے بے نوا مسافر ہم
ان سنی داستاں کو روتے ہیں


کشتیاں بھر گئیں سمندر سے
ہم ابھی بادباں کو روتے ہیں


ہم زمینوں پہ رینگنے والے
کس لیے آسماں کو روتے ہیں


کچھ بھی ہوتا نہیں جو رونے کو
بے سبب این و آں کو روتے ہیں


اپنے ملبے پہ بیٹھ کر ناصرؔ
در و دیوار جاں کو روتے ہیں