Naseem Nazish

نسیم نازش

نسیم نازش کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے

    اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ایک طرف سے اندھے ہوتے ہیں

    ایک طرف سے اندھے ہوتے ہیں کیسے یہ آئینے ہوتے ہیں کسی کو جو کوئی رنج نہیں دیتے لوگ وہ کتنے اچھے ہوتے ہیں تنہائی کا خوف تھکاتا ہے یا پھر بوجھل رستے ہوتے ہیں آنکھیں ان کو دیکھ نہیں پاتیں دیواروں میں چہرے ہوتے ہیں جلتی ہیں جب قربت کی شمعیں کتنے روشن لمحے ہوتے ہیں شام بہار کے دل ...

    مزید پڑھیے

    سچ کی صدا جب آتی ہے

    سچ کی صدا جب آتی ہے خاموشی چھا جاتی ہے ڈوبنے لگتی ہے ناؤ ندیا شور مچاتی ہے اس کی یاد کی پروائی کتنے پھول کھلاتی ہے عشق کی یہ آزاد روی زنجیریں پہناتی ہے آج بھی تیری دیوانی تیری ہی کہلاتی ہے ہولے سے چلتی ہے نسیم یاد کسی کی آتی ہے شام کے گیسو کھلتے ہی تنہائی بڑھ جاتی ہے ملنا ...

    مزید پڑھیے

    کیوں نہ مجھ کو ترا پتا مل جائے

    کیوں نہ مجھ کو ترا پتا مل جائے ڈھونڈنے والوں کو خدا مل جائے وقت کی رہ گزار میں شاید کوئی مجھ سا شکستہ پا مل جائے ہم کو تنہائیاں نصیب رہیں اور تمہیں ہم سا دوسرا مل جائے عکس ہوں اور بھٹک رہی ہوں میں چاہتی ہوں کہ آئینہ مل جائے یا تو اس دشت میں شجر ہو کوئی یا مجھے گھر کا راستہ مل ...

    مزید پڑھیے

6 نظم (Nazm)

    تقدیر

    یہاں ہر ایک کی قسمت میں لکھا ہے مسلسل دائروں میں گھومتے رہنا سفر سارے سفر یوں ہی کٹے ہیں ہماری زندگی بھی ایک ہی مرکز کے چکر کاٹتے گزری وہ مرکز صرف تھوڑی سی محبت اور عزت اور اک نان جویں کی آرزو ہے کبھی جو مل نہ پائے ایک ایسے ہم سفر کی جستجو ہے میں برسوں سے کسی آندھی کے جھکڑ کی طرح اس ...

    مزید پڑھیے

    ایک غیر اہم شام کا تذکرہ

    تم سے بچھڑ کے زیست میں غم کا نزول رہ گیا بجھ گیا رنگ شاعری حرف فضول رہ گیا میرے لئے تو ہر نفس دکھ کا حصول رہ گیا دل کا جو اک گلاب تھا بن کے وہ دھول رہ گیا سرو و سمن چلے گئے صرف ببول رہ گیا شام کی زلف میں سجا یاد کا پھول رہ گیا مجھ کو اکیلا دیکھ کر چاند ملول رہ گیا

    مزید پڑھیے

    اسلام آباد کی ایک شام

    زمیں پہ پتے بکھر رہے ہیں خنک ہوا کے اداس جھونکے گئی رتوں کی تلاش میں ہیں خزاں زدہ باغ بے بہاراں یہ کہہ رہا ہے کہ مجھ کو دیکھو عجیب دن ہیں عجیب راتیں شکستہ پا بے نشاں سویرے مرا مقدر ہیں بس اندھیرے نہ اب پرندے شجر پہ گاتے ہیں گیت کوئی بس ایک بے نام فاصلہ ہے جو کہنہ پیڑوں کے درمیاں ...

    مزید پڑھیے

    کڑوا سچ

    میں فقط جسم نہیں ذہن بھی ہوں سب قصیدے لب و رخسار کے برحق لیکن چشم میگوں کے ادھر قامت شمشاد کے ساتھ زلف پیچاں سے پرے میری اک سوچ بھی ہے فکر بھی ہے میں کہ تخلیق بشر کا ہوں وسیلہ لیکن کیوں دکھائی نہیں دیتا ہے تمہیں میرا شعور میری دانش کے کئی رنگ ہیں تاریخ کے پاس میرے افکار مری رائے ...

    مزید پڑھیے

    وجود

    بتاؤ کون گم ہوا، وہ ہم نفس گیا کہاں نقوش پا سنا رہے ہیں آج کس کی داستاں یہ رات، دن کے سلسلے جو ہیں ہمارے درمیاں ہماری کوئی ابتدا نہ ہے ہماری انتہا بس اک مہیب فاصلہ بس اک عجیب سلسلہ یہ جو بھی کچھ نظر میں ہے سفر میں ہے، سفر میں ہے جو رازدان وقت تھے انہیں کہیں سے لاؤ اب سنوار دیں جو ...

    مزید پڑھیے

تمام