اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے
اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ...