Naseem Nazish

نسیم نازش

نسیم نازش کی غزل

    اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے

    اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ایک طرف سے اندھے ہوتے ہیں

    ایک طرف سے اندھے ہوتے ہیں کیسے یہ آئینے ہوتے ہیں کسی کو جو کوئی رنج نہیں دیتے لوگ وہ کتنے اچھے ہوتے ہیں تنہائی کا خوف تھکاتا ہے یا پھر بوجھل رستے ہوتے ہیں آنکھیں ان کو دیکھ نہیں پاتیں دیواروں میں چہرے ہوتے ہیں جلتی ہیں جب قربت کی شمعیں کتنے روشن لمحے ہوتے ہیں شام بہار کے دل ...

    مزید پڑھیے

    سچ کی صدا جب آتی ہے

    سچ کی صدا جب آتی ہے خاموشی چھا جاتی ہے ڈوبنے لگتی ہے ناؤ ندیا شور مچاتی ہے اس کی یاد کی پروائی کتنے پھول کھلاتی ہے عشق کی یہ آزاد روی زنجیریں پہناتی ہے آج بھی تیری دیوانی تیری ہی کہلاتی ہے ہولے سے چلتی ہے نسیم یاد کسی کی آتی ہے شام کے گیسو کھلتے ہی تنہائی بڑھ جاتی ہے ملنا ...

    مزید پڑھیے

    کیوں نہ مجھ کو ترا پتا مل جائے

    کیوں نہ مجھ کو ترا پتا مل جائے ڈھونڈنے والوں کو خدا مل جائے وقت کی رہ گزار میں شاید کوئی مجھ سا شکستہ پا مل جائے ہم کو تنہائیاں نصیب رہیں اور تمہیں ہم سا دوسرا مل جائے عکس ہوں اور بھٹک رہی ہوں میں چاہتی ہوں کہ آئینہ مل جائے یا تو اس دشت میں شجر ہو کوئی یا مجھے گھر کا راستہ مل ...

    مزید پڑھیے