سچ کی صدا جب آتی ہے

سچ کی صدا جب آتی ہے
خاموشی چھا جاتی ہے


ڈوبنے لگتی ہے ناؤ
ندیا شور مچاتی ہے


اس کی یاد کی پروائی
کتنے پھول کھلاتی ہے


عشق کی یہ آزاد روی
زنجیریں پہناتی ہے


آج بھی تیری دیوانی
تیری ہی کہلاتی ہے


ہولے سے چلتی ہے نسیم
یاد کسی کی آتی ہے


شام کے گیسو کھلتے ہی
تنہائی بڑھ جاتی ہے


ملنا روز نہیں اچھا
عادت سی پڑ جاتی ہے


رفتہ رفتہ نازشؔ عمر
افسانہ بن جاتی ہے