نجمہ شاہین کھوسہ کی غزل

    پھر مصر کے بازار میں نیلام ہوا کیوں

    پھر مصر کے بازار میں نیلام ہوا کیوں اے عشق بتا تیرا یہ انجام ہوا کیوں ہم باعث راحت جسے سمجھے تھے وہ لمحہ اب اپنے لیے باعث آلام ہوا کیوں اے عشق فلک پر تجھے لکھا جو خدا نے پھر تیرا مقدر بھلا ابہام ہوا کیوں اے عشق ترا نام ہے جب سچ کی علامت اے عشق تو رسوا یوں سر عام ہوا کیوں جب ایک ...

    مزید پڑھیے

    زمیں ملے کہیں ہمیں کہیں تو آسماں ملے

    زمیں ملے کہیں ہمیں کہیں تو آسماں ملے دکھوں کی دھوپ میں شجر کوئی تو مہرباں ملے ترے فراق میں جئے ترے فراق میں مرے چلو یہ خواب ہی سہی وصال کا گماں ملے الم کی شام آ گئی لو میرے نام آ گئی چراغ لے کے راہ میں اے کاش مہرباں ملے ابھی تلک فغاں ہوں میں مثال داستاں ہوں میں ملے تو ایک پل کبھی ...

    مزید پڑھیے

    اے زندگی مجھے ترا کوئی تو اب سرا ملے

    اے زندگی مجھے ترا کوئی تو اب سرا ملے کہ کس نگر ملے گی تو کوئی تو اب پتہ ملے کسی کی یاد نے ہمیں تو خود سے دور کر دیا بس اپنے آپ سے ہمیں کوئی تو اب جدا ملے نہ جن کی ہچکیوں کو کوئی شانہ آج تک ملا انہی کے آنسوؤں کو بھی کوئی تو اب جگہ ملے بس اپنے بام و در سے ہم نا آشنا رہے سدا کوئی تو ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی شہر کی اجنبی شام میں

    اجنبی شہر کی اجنبی شام میں زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں شام آنکھوں میں اتری اسی شام کو زندگی سے گئی زندگی شام میں درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں عشق پر آفریں جو سلامت رہا اس بکھرتی ہوئی سرمئی شام میں ہر طرف اشک اور سسکیاں ہجر کی درد ہی درد ہے ہر گھڑی ...

    مزید پڑھیے

    زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی

    زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی لگتی ہے زندگی بھی مصیبت کبھی کبھی پہلو میں جاگتی ہے محبت کبھی کبھی آتی ہے ہاتھ درد کی دولت کبھی کبھی اب تک ترے بغیر میں زندہ ہوں کس طرح ہوتی ہے اپنے آپ پر حیرت کبھی کبھی اک پل کا جو وصال تھا ان ماہ و سال میں دیتا ہے ہجر میں بھی رفاقت کبھی ...

    مزید پڑھیے

    دل کو ذرا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا

    دل کو ذرا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا آنکھوں کو انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا وہ ساتھ تھا تو ساتھ میں میری بھی ذات تھی میرا کہیں شمار تھا، وہ بھی نہیں رہا اس سے ہوئے جدا تو پھر خود کو بھی کھو دیا خود پر جو اعتبار تھا وہ بھی نہیں رہا دامن میں کوئی چاند، ستارہ نہ آفتاب جگنو پر انحصار ...

    مزید پڑھیے

    اس کی طلب میں راہ کو تکتی ہے زندگی

    اس کی طلب میں راہ کو تکتی ہے زندگی آنکھوں میں وقت شام چمکتی ہے زندگی تیرے لئے جب آنکھ برستی ہے رات کو پھر دل کے ساتھ ساتھ سلگتی ہے زندگی دکھ سے نڈھال ہو کے جو روتی ہیں بیٹیاں پھر ان کے دیکھ دیکھ کے ہنستی ہے زندگی جو اک خیال باعث آزار ہے بہت اس اک خیال سے ہی چہکتی ہے زندگی کس سے ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ کے اس سے ابھی ہوں زندہ مگر بہت پر ملال اب تک

    بچھڑ کے اس سے ابھی ہوں زندہ مگر بہت پر ملال اب تک خبر نہیں وہ سنبھل چکا ہے یا وہ بھی ہے خستہ حال اب تک مجھے ترا انتظار کیوں ہے یہ دل مرا بے قرار کیوں ہے مرے خیال و نظر میں دیکھو یہی ہے بس اک سوال اب تک کہا گیا وقت سارے زخموں کا آپ مرہم بنے گا اک دن کہو کہ زخموں کا کیوں نہیں ہو سکا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی بے قرار لگتی ہے

    زندگی بے قرار لگتی ہے درد کی آبشار لگتی ہے پھر سے شام فراق آئی اب آنکھ بھی اشک بار لگتی ہے زخم دل کے شمار کرتی ہوں ہر گھڑی سوگوار لگتی ہے کیا بتاؤں یہ ہستئ موہوم ایک مشت غبار لگتی ہے سردیوں کی اداس راتوں میں چاندنی بھی غبار لگتی ہے بد نصیبی نہ پوچھئے شاہینؔ زندگی شعلہ بار ...

    مزید پڑھیے

    خوشیوں کا راستہ گو بڑا مختصر رہا ہے

    خوشیوں کا راستہ گو بڑا مختصر رہا ہے لیکن یہ دکھ سدا سے مرا ہم سفر رہا ہے اس کی ادا پہ شاید رونے لگے فلک بھی وعدوں سے اپنے کیسے اب وہ مکر رہا ہے کیسی بہار ہے یہ کیسا ہے وصل موسم ٹہنی سے ٹوٹ کر جو رہ میں بکھر رہا ہے وہ جا چکا ہے تو پھر اس سے گلہ بھی کیوں کر کب ساتھ اس جہاں کوئی عمر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4