بچھڑ کے اس سے ابھی ہوں زندہ مگر بہت پر ملال اب تک
بچھڑ کے اس سے ابھی ہوں زندہ مگر بہت پر ملال اب تک
خبر نہیں وہ سنبھل چکا ہے یا وہ بھی ہے خستہ حال اب تک
مجھے ترا انتظار کیوں ہے یہ دل مرا بے قرار کیوں ہے
مرے خیال و نظر میں دیکھو یہی ہے بس اک سوال اب تک
کہا گیا وقت سارے زخموں کا آپ مرہم بنے گا اک دن
کہو کہ زخموں کا کیوں نہیں ہو سکا بھلا اندمال اب تک
کہاں یہ ممکن کہ بھول جاؤں میں زندگی کی حسین یادیں
بتاؤں کیسے کہ ہجر میں ہوں میں رنج و غم سے نڈھال اب تک
میں ایک مشعل میں ایک جگنو میں ایک شمع وفا ہوں شاہیںؔ
مرے خدا نے رکھا ہوا ہے مجھے تو یوں خوش خیال اب تک