خوشیوں کا راستہ گو بڑا مختصر رہا ہے

خوشیوں کا راستہ گو بڑا مختصر رہا ہے
لیکن یہ دکھ سدا سے مرا ہم سفر رہا ہے


اس کی ادا پہ شاید رونے لگے فلک بھی
وعدوں سے اپنے کیسے اب وہ مکر رہا ہے


کیسی بہار ہے یہ کیسا ہے وصل موسم
ٹہنی سے ٹوٹ کر جو رہ میں بکھر رہا ہے


وہ جا چکا ہے تو پھر اس سے گلہ بھی کیوں کر
کب ساتھ اس جہاں کوئی عمر بھر رہا ہے


خوشبو کی اور خوشی کی امید کیا کریں اب
جب آندھیوں کی زد میں دل کا نگر رہا ہے


دل کھول کر ہیں برسیں پھر سے ہماری آنکھیں
شاہینؔ ہجر موسم پھر سے نکھر رہا ہے