اس کی طلب میں راہ کو تکتی ہے زندگی

اس کی طلب میں راہ کو تکتی ہے زندگی
آنکھوں میں وقت شام چمکتی ہے زندگی


تیرے لئے جب آنکھ برستی ہے رات کو
پھر دل کے ساتھ ساتھ سلگتی ہے زندگی


دکھ سے نڈھال ہو کے جو روتی ہیں بیٹیاں
پھر ان کے دیکھ دیکھ کے ہنستی ہے زندگی


جو اک خیال باعث آزار ہے بہت
اس اک خیال سے ہی چہکتی ہے زندگی


کس سے کریں یہ بات کہ جو حال ہیں یہاں
خاموش اگر ہوئے تو بلکتی ہے زندگی


رستوں کو سوچ سوچ پریشان ہیں سبھی
منزل کو کھوج کھوج سسکتی ہے زندگی


چاہت کے جو بھی زخم ہیں رکھئے سنبھال کر
ان کی ہی باس سے تو مہکتی ہے زندگی


اس نے دیا تھا ایک دیا راہ کے لئے
کب تک جلے گا آج تو تھکتی ہے زندگی