مزمل حسین چیمہ کی غزل

    ہر جگہ اس طرح ہوا ہوں میں

    ہر جگہ اس طرح ہوا ہوں میں جیسے کوئی میاں خدا ہوں میں گر تو بھی جانتی نہیں مجھ کو تو بتا کس سے پوچھوں کیا ہوں میں اس کو تو خود کشی نہ سمجھو تم جینے کے واسطے مرا ہوں میں وہ مجھے بے وفا سمجھتا تھا اس لیے بے وفا ہوا ہوں میں ہجر کا فیصلہ ہو تم جاناں وصل کی ایک التجا ہوں میں خود ہی ...

    مزید پڑھیے

    اس سے کیوں کوئی پوچھتا ہی نہیں

    اس سے کیوں کوئی پوچھتا ہی نہیں وہ اگر مجھ کو سوچتا ہی نہیں کہنے کو تو وہ جان ہے میری کہنے کا مجھ کو حوصلہ ہی نہیں میری منزل رکھی گئی ہے وہاں جس طرف کوئی راستہ ہی نہیں اس کے ہر پل کی ہے خبر مجھ کو ان دنوں جس سے رابطہ ہی نہیں اس کے اندر چبھا ہوا ہوں میں جانے کیوں مجھ کو ڈھونڈھتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    اس حوالے سے اسے پند شکیبائی ہو

    اس حوالے سے اسے پند شکیبائی ہو تیرے زخموں کی میاں اتنی تو گہرائی ہو کیسے پھر مجھ کو خیال آئے ملاقات کا دوست جب ترا نام بھی لینے میں رسوائی ہو جب بیاں ہونے لگیں پوریں زباں چھو جائیں میری تکلیف کی کچھ ایسی پذیرائی ہو تیری حرکت کی بدولت ہے عبادت میری تو جہاں پیر رکھے میری جبیں ...

    مزید پڑھیے

    میاں زمانے سے لہجہ جدا نہیں تیرا

    میاں زمانے سے لہجہ جدا نہیں تیرا یقین کر کہ یقیں اب رہا نہیں تیرا کسی بھی دل کو سلامت نہیں رکھا تو نے کہ کام کوئی بھی اچھا رہا نہیں تیرا وہی ہے خوشبو نئے ہاتھ کی حنا میں مگر ابھی تک آنکھ سے نقشہ مٹا نہیں تیرا مرے خلاف گلی میں ہوئیں تھیں باتیں بہت مگر وہاں کوئی چہرہ دکھا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زلف رخ پہ سوار کرتے ہوئے

    زلف رخ پہ سوار کرتے ہوئے مار ڈالا سنگھار کرتے ہوئے چومنے کو غلط نہ جانیں آپ پیار ہوتا ہے پیار کرتے ہوئے کیوں مرا اعتبار کرتے نہیں وہ مرا اعتبار کرتے ہوئے رابطہ ٹوٹنے لگا اس سے رابطہ استوار کرتے ہوئے توڑ بیٹھے وجود اپنا ہم عشق کو پائیدار کرتے ہوئے

    مزید پڑھیے

    ایک وہ بھی وقت کیا خوب رہے ہیں میاں

    ایک وہ بھی وقت کیا خوب رہے ہیں میاں خواب کہ اب آنکھوں میں ڈوب رہے ہیں میاں ایسا نہیں ہے فقط ہجر کا چرچا ہوا وصل سے بھی پہلے منسوب رہے ہیں میاں لفظ ترے حسن کی طرح حسیں لفظ دوست شاعری کرنے کو مطلوب رہے ہیں میاں ہجر کے حامی تو دونوں ہی نہیں تھے مگر وصل میں بھی ہم کہ معیوب رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    مری عبادتیں جگ پر عیاں نہ ہو جائیں

    مری عبادتیں جگ پر عیاں نہ ہو جائیں یہ اس کا در ہے جبیں پر نشاں نہ ہو جائیں کچھ اس لیے بھی ضرورت تھی ہم کو مرہم کی کہیں یہ زخم ہماری زباں نہ ہو جائیں ہم ایسے خواب میں بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ تیری آنکھ سے آنسو رواں نہ ہو جائیں ہم اس لیے بھی نہیں دیکھتے جی بھر ان کو گماں ہوا وہ کہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو تمہاری محبت سے خوف آتا ہے

    یہ جو تمہاری محبت سے خوف آتا ہے مجھے ضرور ضرورت سے خوف آتا ہے سنا ہے حشر میں بھی تو مری نہیں سنے گا سنا ہے جب سے قیامت سے خوف آتا ہے تمہاری دید لیے دیکھ لیتا ہوں تم کو اگرچہ ایسی بصارت سے خوف آتا ہے میں اپنے شہر کا پہلا دریدہ صورت ہوں کچھ اس لیے بھی جراحت سے خوف آتا ہے

    مزید پڑھیے