میاں زمانے سے لہجہ جدا نہیں تیرا
میاں زمانے سے لہجہ جدا نہیں تیرا
یقین کر کہ یقیں اب رہا نہیں تیرا
کسی بھی دل کو سلامت نہیں رکھا تو نے
کہ کام کوئی بھی اچھا رہا نہیں تیرا
وہی ہے خوشبو نئے ہاتھ کی حنا میں مگر
ابھی تک آنکھ سے نقشہ مٹا نہیں تیرا
مرے خلاف گلی میں ہوئیں تھیں باتیں بہت
مگر وہاں کوئی چہرہ دکھا نہیں تیرا
یہ بیچ راستے میں ہجر کا جو فیصلہ ہے
کسی کا فیصلہ ہے فیصلہ نہیں تیرا
مرا وجود ہے گرچہ سبب دعاؤں کا
مرے وجود پہ حرف دعا نہیں تیرا
یہ تیرے بارے میں بھی سوچ رکھتا ہے کوئی
مرا خدا ہے مزملؔ خدا نہیں تیرا