اس حوالے سے اسے پند شکیبائی ہو

اس حوالے سے اسے پند شکیبائی ہو
تیرے زخموں کی میاں اتنی تو گہرائی ہو


کیسے پھر مجھ کو خیال آئے ملاقات کا دوست
جب ترا نام بھی لینے میں رسوائی ہو


جب بیاں ہونے لگیں پوریں زباں چھو جائیں
میری تکلیف کی کچھ ایسی پذیرائی ہو


تیری حرکت کی بدولت ہے عبادت میری
تو جہاں پیر رکھے میری جبیں سائی ہو


کاش وہ چھت پہ کھڑی بال سکھاتی ہو غزل
آخری ہی سہی پر خواہش انگڑائی ہو