اس سے کیوں کوئی پوچھتا ہی نہیں
اس سے کیوں کوئی پوچھتا ہی نہیں
وہ اگر مجھ کو سوچتا ہی نہیں
کہنے کو تو وہ جان ہے میری
کہنے کا مجھ کو حوصلہ ہی نہیں
میری منزل رکھی گئی ہے وہاں
جس طرف کوئی راستہ ہی نہیں
اس کے ہر پل کی ہے خبر مجھ کو
ان دنوں جس سے رابطہ ہی نہیں
اس کے اندر چبھا ہوا ہوں میں
جانے کیوں مجھ کو ڈھونڈھتا ہی نہیں
لوگ پوجیں وفائیں کرنے پر
اور کوئی ایسا سلسلہ ہی نہیں
سوچ کر جس کو لکھنے بیٹھتا ہوں
میں نے اس کو غزلؔ لکھا ہی نہیں