مزمل عباس شجر کی غزل

    فراز دار کو ذوق جنوں تلاش کرے

    فراز دار کو ذوق جنوں تلاش کرے یہ دل کہ تیری نظر کا فسوں تلاش کرے سکون کے لیے پہلے نظر نظر سے ملے نظر ملا کے یہ دل پھر سکوں تلاش کرے کسی نے زہد کیا اور تو کوئی مست ہوا جسے تو یوں نہیں ملتا وہ یوں تلاش کرے لو آج رمز نہاں کو عیاں کروں کہ بشر بروں پہ ثبت ہے تختی دروں تلاش کرے تمام ...

    مزید پڑھیے

    زخم تازہ کیے کچھ اور مسیحائی نے

    زخم تازہ کیے کچھ اور مسیحائی نے پھیر لی آنکھ تماشے سے تماشائی نے دیکھنے والے کا دل ہاتھ پہ لے آئی ہے کیا فسوں پھونک دیا ہے تری انگڑائی نے مسکراؤں تو نمی آنکھ میں آ جاتی ہے یوں اچھالا ہے مجھے درد کی گہرائی نے آہ و زاری کے سوا پاس مرے کچھ بھی نہیں کاٹ کر رکھ دیا مجھ کو مری تنہائی ...

    مزید پڑھیے

    ملن نہ رائیگاں جائے سمے سے پار ملیں

    ملن نہ رائیگاں جائے سمے سے پار ملیں کہ ایک دوسرے کا بن کے ہم قرار ملیں عجیب اپنا مقدر عجیب محرومی کہ تیرے ہوتے ہوئے تیرے انتظار ملیں میں نقد جان کو بھی شوق سے رکھوں گروی تمہارے قرب کے لمحے اگر ادھار ملیں بہار پھول دھنک چاندنی گھٹا موسم تمہاری ایک ہنسی پر سبھی نثار ملیں جو ...

    مزید پڑھیے

    غرور بزم طرب کو نمی نے مار دیا

    غرور بزم طرب کو نمی نے مار دیا ہمارے ضبط کو تیری کمی نے مار دیا در نجف سے ذرا اختیار حاصل کر نہ کہہ سکے گا کبھی بے بسی نے مار دیا درون خانۂ ہستی یہ کیسا شور اٹھا بدن میں کال پڑا بیکلی نے مار دیا قلم نے لوح پہ سر رکھ کہ ایسا گریہ کیا غزل نے بین کیے شاعری نے مار دیا دعا جو موت کی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے آنکھ ملے رمز کھلے بات چلے

    آنکھ سے آنکھ ملے رمز کھلے بات چلے دن نکلنے دو کہ پہلو سے مرے رات چلے تیری چوڑی کی کھنک سے ہوا تسخیر یہ دل تیری آنکھوں کے اشاروں پہ خیالات چلے وہ سحر خیز ہنسی وہ ترا شرما جانا کیسے کیسے مری ہستی پہ طلسمات چلے ذکر کو نیزے کی رفعت پہ سجایا جس نے رہ گیا حق کا وہ مرکز سو مضافات ...

    مزید پڑھیے

    کب حقیقت وہ بھلا دنیا میں جام جم کی ہے

    کب حقیقت وہ بھلا دنیا میں جام جم کی ہے جو تمہارے میکدے میں میری چشم نم کی ہے میں کسی کے لمس کی تاثیر خود میں بھر تو لوں آبرو لیکن مجھے پیاری تمہارے غم کی ہے زلف کا ہر پیچ الجھاؤ میں ڈالے ہے مگر اصل میں جادوگری تیری کمر کے خم کی ہے دیکھ لیتے ہیں تو بڑھتی ہے طلب کچھ اور بھی گو ...

    مزید پڑھیے

    کہی جو ہم نے غزل اک غزل کے چہرے پر

    کہی جو ہم نے غزل اک غزل کے چہرے پر چڑھائی تیوری اس نے مچل کے چہرے پر ہمارے شہر میں کچھ دن گزار کر دیکھو اداسی رقص کرے گی اچھل کے چہرے پر بڑھاتا جاؤں گا ہر چند رونق مقتل میں چل پڑا ہوں لہو اپنا مل کے چہرے پر تلاش کرتے ہیں وہ آج اپنے چہرے کو جو پھرتے رہتے تھے چہرے بدل کے چہرے ...

    مزید پڑھیے

    امید کے دیے کی مخالف ہوا بھی ہے

    امید کے دیے کی مخالف ہوا بھی ہے لڑنے کا آندھیوں سے مگر حوصلہ بھی ہے جانے کو تیرے شہر سے تیار ہیں مگر ہم جا نہیں سکیں گے ہمیں یہ پتا بھی ہے ہم نے بھی ظلمتوں کو مٹایا ہے اپنے طور سورج کے ساتھ ساتھ ہمارا دیا بھی ہے کوئی تو ہے جو خانۂ ہستی میں ہے مقیم آواز میں ہماری وہی بولتا بھی ...

    مزید پڑھیے