غرور بزم طرب کو نمی نے مار دیا
غرور بزم طرب کو نمی نے مار دیا
ہمارے ضبط کو تیری کمی نے مار دیا
در نجف سے ذرا اختیار حاصل کر
نہ کہہ سکے گا کبھی بے بسی نے مار دیا
درون خانۂ ہستی یہ کیسا شور اٹھا
بدن میں کال پڑا بیکلی نے مار دیا
قلم نے لوح پہ سر رکھ کہ ایسا گریہ کیا
غزل نے بین کیے شاعری نے مار دیا
دعا جو موت کی مانگی تو یہ جواب ملا
نہ مر سکا وہ جسے زندگی نے مار دیا
سمجھ رہا تھا اسے حاصل حیات مگر
اٹھا حجاب مجھے آگہی نے مار دیا
انہیں پہ ہوگی شجرؔ گفتگو زمانے میں
کچھ ایسے لوگ جنہیں خامشی نے مار دیا