آنکھ سے آنکھ ملے رمز کھلے بات چلے
آنکھ سے آنکھ ملے رمز کھلے بات چلے
دن نکلنے دو کہ پہلو سے مرے رات چلے
تیری چوڑی کی کھنک سے ہوا تسخیر یہ دل
تیری آنکھوں کے اشاروں پہ خیالات چلے
وہ سحر خیز ہنسی وہ ترا شرما جانا
کیسے کیسے مری ہستی پہ طلسمات چلے
ذکر کو نیزے کی رفعت پہ سجایا جس نے
رہ گیا حق کا وہ مرکز سو مضافات چلے
کوئی تخلیق کے اسباب بھی سمجھے نا ذرا
ایک نقطے سے عیاں رنگ یہاں سات چلے
جب میں تسخیر ترے راز کو کر پایا تو
پھر مرے رقص پہ دنیا ترے نغمات چلے
مکتب عقل پڑھا پڑھ کے چلا میخانے
جب نہ دانائی چلی پھر مرے جذبات چلے
پرزے پرزے ہے ترے ہجر میں پیراہن جاں
مجھ میں سانسوں کی طرح یوں ترے صدمات چلے
لوٹ آئے گی مری سمت شجرؔ ہریالی
پھر جو اک بار اسی لمس کی خیرات چلے