زخم تازہ کیے کچھ اور مسیحائی نے
زخم تازہ کیے کچھ اور مسیحائی نے
پھیر لی آنکھ تماشے سے تماشائی نے
دیکھنے والے کا دل ہاتھ پہ لے آئی ہے
کیا فسوں پھونک دیا ہے تری انگڑائی نے
مسکراؤں تو نمی آنکھ میں آ جاتی ہے
یوں اچھالا ہے مجھے درد کی گہرائی نے
آہ و زاری کے سوا پاس مرے کچھ بھی نہیں
کاٹ کر رکھ دیا مجھ کو مری تنہائی نے
خاک میں مل گیا پندار وفا کیا کیجے
زخم وہ دل پہ لگایا ہے شناسائی نے