کب حقیقت وہ بھلا دنیا میں جام جم کی ہے

کب حقیقت وہ بھلا دنیا میں جام جم کی ہے
جو تمہارے میکدے میں میری چشم نم کی ہے


میں کسی کے لمس کی تاثیر خود میں بھر تو لوں
آبرو لیکن مجھے پیاری تمہارے غم کی ہے


زلف کا ہر پیچ الجھاؤ میں ڈالے ہے مگر
اصل میں جادوگری تیری کمر کے خم کی ہے


دیکھ لیتے ہیں تو بڑھتی ہے طلب کچھ اور بھی
گو کہانی سامنے کی زخم پر مرہم کی ہے


خاک میں پانی ملا کر آگ پر ہے رکھ دیا
اب مجسم کو ضرورت تجھ ہوا کے دم کی ہے


رخ پہ آنچل کس لیے یہ اجنبی لہجہ ہے کیوں
سرسراہٹ یہ یقیناً ہجر کے پرچم کی ہے


چل نہ پائیں گے کسی کے وسوسے مجھ پر شجرؔ
پڑھ کر اس کے نام کی تسبیح خود پہ دم کی ہے