کہی جو ہم نے غزل اک غزل کے چہرے پر

کہی جو ہم نے غزل اک غزل کے چہرے پر
چڑھائی تیوری اس نے مچل کے چہرے پر


ہمارے شہر میں کچھ دن گزار کر دیکھو
اداسی رقص کرے گی اچھل کے چہرے پر


بڑھاتا جاؤں گا ہر چند رونق مقتل
میں چل پڑا ہوں لہو اپنا مل کے چہرے پر


تلاش کرتے ہیں وہ آج اپنے چہرے کو
جو پھرتے رہتے تھے چہرے بدل کے چہرے پر


خزاں بہار کی مسند پہ آ گئی ہائے
نقاب کر لیا اس نے سنبھل کے چہرے پر


فضائے مکر نے صحرا کو کر دیا دریا
سراب سجنے لگے ہیں رمل کے چہرے پر


ادھر مروں گا ادھر مر کے جی اٹھوں گا شجرؔ
حیات میں نے پڑھی ہے اجل کے چہرے پر