امید کے دیے کی مخالف ہوا بھی ہے

امید کے دیے کی مخالف ہوا بھی ہے
لڑنے کا آندھیوں سے مگر حوصلہ بھی ہے


جانے کو تیرے شہر سے تیار ہیں مگر
ہم جا نہیں سکیں گے ہمیں یہ پتا بھی ہے


ہم نے بھی ظلمتوں کو مٹایا ہے اپنے طور
سورج کے ساتھ ساتھ ہمارا دیا بھی ہے


کوئی تو ہے جو خانۂ ہستی میں ہے مقیم
آواز میں ہماری وہی بولتا بھی ہے


امید صبح وصل کا دم ٹوٹنے لگا
کچھ کہہ شب فراق تری انتہا بھی ہے


چلتے چلو کہ منزلیں آ کر ملیں گی خود
کچھ در ہوئے ہیں بند تو اک در کھلا بھی ہے


ہم خود پسندیوں سے نکلنے لگے شجرؔ
ہم سوچنے لگے ہیں ہمارا خدا بھی ہے