Musavvir Sabzwari

مصور سبزواری

ممتاز جدید شاعر

Prominent modernist ghazal poet

مصور سبزواری کی غزل

    بچھڑ کے بھی ملا رسوائیوں کا قہر تجھے

    بچھڑ کے بھی ملا رسوائیوں کا قہر تجھے چھپا سکا نہ ترے آنسوؤں کا شہر تجھے یہ چڑھتی دھوپ کا ملبوس اتار دے سر شام اترتی دھوپ میں اب دیکھتا ہے شہر تجھے ہر ایک سیل صدا کو تو کر گیا پایاب ڈبو سکی نہ مری چاہتوں کی نہر تجھے بکھرتی کرنوں کو آنگن میں تھامنے والے مہ تمام کا پینا پڑے گا زہر ...

    مزید پڑھیے

    دشنۂ درد ہر اک سانس میں ٹھہرا ہوگا

    دشنۂ درد ہر اک سانس میں ٹھہرا ہوگا دل سمندر ہے تو پھر گھاؤ بھی گہرا ہوگا تیری قربت میں مری سانس گھٹی جاتی ہے میں نے سوچا تھا ترا جسم بھی صحرا ہوگا موج خوں سر سے گزر جائے گی جس رات مرے رنگ پیراہن شب اور بھی گہرا ہوگا چل پڑے ہیں ابھی جس پر یہ سفیران بہار کسی بجتی ہوئی زنجیر کا ...

    مزید پڑھیے

    حسین ہی تھا جو پیاسا اٹھا فرات سے وہ

    حسین ہی تھا جو پیاسا اٹھا فرات سے وہ لہولہان سمندر تھا اپنی ذات سے وہ فصیل شب کی کمیں گاہیں اس پہ سب روشن نہ جانے گزرے گا کب جائے واردات سے وہ کیا نہ ترک مراسم پہ احتجاج اس نے کہ جیسے گزرے کسی منزل نجات سے وہ پرندے لوٹ رہے ہیں کھلے بسیروں میں گیا ہے گھر سے بھی لڑ کر گزشتہ رات سے ...

    مزید پڑھیے

    تہہ بہ تہہ دریا کے سب اسرار تک وہ لے گیا

    تہہ بہ تہہ دریا کے سب اسرار تک وہ لے گیا لہر اک اس پار سے اس پار تک وہ لے گیا کیسا سایہ تھا کہ گل کی اس نے ساری روشنی ساتھ اپنے دھند کی دیوار تک وہ لے گیا ایک تھا بیمار قیدی اک گواہ چشم دید ایک ہی زنجیر کو دربار تک وہ لے گیا تھا چراغ التجا لیکن بجھا اس شان سے ہر مخاطب سے لب اظہار ...

    مزید پڑھیے

    میں منحرف تھا جس سے حرف انحراف کی طرح

    میں منحرف تھا جس سے حرف انحراف کی طرح کھلا وہ دھیرے دھیرے بوئے انکشاف کی طرح یہ بے ثمر زمیں یہ رائیگاں فلک کے سلسلے ہیں میرے گرد کیوں حصار اعتکاف کی طرح وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح یہ لگ رہا ہے سب دعائیں مستجاب ہو گئیں جگہ جگہ ہے گہرا ...

    مزید پڑھیے

    لگا ہے ایسا کوئی کاسۂ سوالی ہوں

    لگا ہے ایسا کوئی کاسۂ سوالی ہوں یہ آنکھ جیسے مری روشنی سے خالی ہوں یہ کیا ضروری ہے ہم ساری عمر ساتھ رہیں نہیں یہ بات کہ قدریں یہ لا زوالی ہوں نہ جانے کون پس چشم مر چکا ہوگا وہ آنکھیں جیسے کسی مقبرے کی جالی ہوں سدا سے ہیں کسی نادیدہ گونج کی تابع یہ بھیڑیں سبز پہاڑوں نے جیسے پا لی ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ درد کا یہ سائبان گر جائے

    سیاہ درد کا یہ سائبان گر جائے ہمیں پہ ٹوٹ کے کاش آسمان گر جائے خرابۂ دل تنہا نہ دیکھا جائے گا ہمیں مکیں ہیں تو ہم پر مکان گر جائے میں اس لرزتی سی دیوار دل کا نوحہ ہوں جو کہتے کہتے کوئی داستان گر جائے سنبھل سنبھل کے اٹھا بار بیکسی کا پہاڑ ترے جگر پہ نہ سر کی چٹان گر جائے نہ ایسے ...

    مزید پڑھیے

    فضا میں زلف کے جادو اگر بکھر جاتے

    فضا میں زلف کے جادو اگر بکھر جاتے ہوا کے ساتھ بہت لوگ در بدر جاتے بھلا ہوا کہ ہوئی جنس غم کی ارزانی ہم اپنے داغ دکھانے نگر نگر جاتے نہ جلتا کوئی چراغ صدا تو سب سر شام لپٹ کے اپنے گھروں کے ستوں سے مر جاتے اک ایسا لمحۂ شام خزاں بھی گزرا ہے مجھے جو دیکھتے اس لمحہ تم تو ڈر جاتے ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    گھرا ہوں دو قاتلوں کی زد میں وجود میرا نہ بچ سکے گا

    گھرا ہوں دو قاتلوں کی زد میں وجود میرا نہ بچ سکے گا میں زرد جنگل سے بچ گیا تو پہاڑ اک مشتعل ملے گا ہزیمتوں کے سفر کا راہی افق کو دیکھے گا بے بسی سے افق سے بڑھتا ہوا سمندر زمیں کو قدموں سے کھینچ لے گا جلا کے گھر سے رقیب شمعیں ہوا میں ہم تم نکل پڑے ہیں یہی ہے دونوں کو انتظار اب کہ ...

    مزید پڑھیے

    میں آندھی میں ریزہ ریزہ اک پھول چن رہا ہوں

    میں آندھی میں ریزہ ریزہ اک پھول چن رہا ہوں ڈرا ڈرا سا ہوا کی سانسوں کو سن رہا ہوں وہ دونوں تو ربط باہمی سے جڑے ہوئے تھے میں کیوں رقابت کے اس جہنم میں بھن رہا ہوں پڑوسیوں کے تمام مفروضے سچ ہوئے ہیں میں بے ثمر سوچوں کی ذہانت کو دھن رہا ہوں کہر میں گم سم سماعتو تم گواہ رہنا میں ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5