بچھڑ کے بھی ملا رسوائیوں کا قہر تجھے
بچھڑ کے بھی ملا رسوائیوں کا قہر تجھے چھپا سکا نہ ترے آنسوؤں کا شہر تجھے یہ چڑھتی دھوپ کا ملبوس اتار دے سر شام اترتی دھوپ میں اب دیکھتا ہے شہر تجھے ہر ایک سیل صدا کو تو کر گیا پایاب ڈبو سکی نہ مری چاہتوں کی نہر تجھے بکھرتی کرنوں کو آنگن میں تھامنے والے مہ تمام کا پینا پڑے گا زہر ...