تہہ بہ تہہ دریا کے سب اسرار تک وہ لے گیا
تہہ بہ تہہ دریا کے سب اسرار تک وہ لے گیا
لہر اک اس پار سے اس پار تک وہ لے گیا
کیسا سایہ تھا کہ گل کی اس نے ساری روشنی
ساتھ اپنے دھند کی دیوار تک وہ لے گیا
ایک تھا بیمار قیدی اک گواہ چشم دید
ایک ہی زنجیر کو دربار تک وہ لے گیا
تھا چراغ التجا لیکن بجھا اس شان سے
ہر مخاطب سے لب اظہار تک وہ لے گیا
ہر صدف میں نور کی تھی بوند شرمائی ہوئی
خلوتوں سے کھینچ کر بازار تک وہ لے گیا