Musavvir Sabzwari

مصور سبزواری

ممتاز جدید شاعر

Prominent modernist ghazal poet

مصور سبزواری کی غزل

    یکساں ہے دھواں جلتے خرابے کی مہک تک

    یکساں ہے دھواں جلتے خرابے کی مہک تک سناٹے کا گھر سے دیا سنسان سڑک تک پہلے ہی کہا تھا مرے دامن سے پرے رہ آ ہی گیا تو بھی انہیں شعلوں کی لپک تک اب میں ہوں فقط اور کوئی ہانپتا صحرا آئی تھی مرے ساتھ ان اشکوں کی کمک تک دو کشتیاں کاغذ کی بہا لیں چلو ہم تم پھر تو ہمیں ملنا نہیں خوابوں ...

    مزید پڑھیے

    کڑے ہیں کوس سفر دور کا ضروری ہے

    کڑے ہیں کوس سفر دور کا ضروری ہے گھروں سے رشتوں کا اب خاتمہ ضروری ہے پرستش اپنی انا کے بتوں کی کر لی بہت سکون دل کے لیے اک خدا ضروری ہے کہیں تو تھوڑی سی گنجائش خلوص ملے دلوں میں چھپ کے یہاں جھانکنا ضروری ہے میں سنگ رہ ہوں تو ٹھوکر کی زد پہ آؤں گا تم آئینہ ہو تو پھر ٹوٹنا ضروری ...

    مزید پڑھیے

    بگڑتے بنتے دائرے سوال سوچتے رہے

    بگڑتے بنتے دائرے سوال سوچتے رہے نہ جانے کس کے تھے وہ خد و خال سوچتے رہے جو رونما نہیں ہوا وہ مرحلہ ڈرا گیا ملیں گے کیسے اس سے ماہ و سال سوچتے رہے ستارہ در ستارہ شام اتری ہوگی لان پر اکیلے بیٹھے ہم بصد ملال سوچتے رہے عجیب موڑ سامنے تھے خواب خواب بستیاں بچھڑ کے باقی عمر کا مآل ...

    مزید پڑھیے

    حسرتیں روتی رہیں دل میں مجاور کی طرح

    حسرتیں روتی رہیں دل میں مجاور کی طرح دل مگر چپ ہی رہا لوح مقابر کی طرح خشک پتوں کی طرح چھٹ گئے یاران کہن پھر نہ پلٹے کبھی پت جھڑ کے مسافر کی طرح آ تری مانگ میں کچھ اشک پروتا جاؤں میں تو ہر چھاؤں سے گذروں گا مہاجر کی طرح میں ہوں اک نقش قدم دشت فراموشی کا بھول جاؤ گے مجھے تم بھی ...

    مزید پڑھیے

    جنگل مدافعت کے ہلکان ہو گئے ہیں

    جنگل مدافعت کے ہلکان ہو گئے ہیں سب رستے آندھیوں کے آسان ہو گئے ہیں رشتوں کا بوجھ ڈھونا دل دل میں کڑھتے رہنا ہم ایک دوسرے پر احسان ہو گئے ہیں آنکھیں ہیں سلگی سلگی چہرے ہیں دہکے دہکے کن جلتی بستیوں کی پہچان ہو گئے ہیں لوگوں کا آنا جانا معمول تھا پر اب کے گھر پہلے سے زیادہ سنسان ...

    مزید پڑھیے

    جسموں کی چڑھتی دھوپ کا جب قہر اتر گیا

    جسموں کی چڑھتی دھوپ کا جب قہر اتر گیا اک شعلہ ڈوبنے کو سر نہر اتر گیا پھر یاد آ گئی ہے ترے آنسوؤں کی شام پھر آج زیر آب کوئی شہر اتر گیا اب ڈس رہا ہے مجھ کو مرا کھوکھلا بدن ساون کی بجلیوں سے مرا زہر اتر گیا ہم موج تہ نشیں تھے تجھے چھو نہیں سکے تو برگ سطح آب تھا ہر لہر اتر گیا اب ...

    مزید پڑھیے

    رہ جنوں میں چلا یوں میں عمر بھر تنہا

    رہ جنوں میں چلا یوں میں عمر بھر تنہا کہ جیسے کوئی بگولا کرے سفر تنہا اداسی روح سے گزری ہے اس طرح جیسے اجاڑ دشت میں پت جھڑ کی دوپہر تنہا بھٹک رہی ہے خلاؤں میں یوں نظر جیسے ہو رات میں کسی گمراہ کا گزر تنہا گزر گئے جرس گل کے قافلے کب کے تکا کرے یوں ہی اب گرد رہگزر تنہا نسیم صبح ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک پل کی تھا خوشبو کدھر نکل آیا

    میں ایک پل کی تھا خوشبو کدھر نکل آیا چلا میں مجھ کو ہوا کا سفر نکل آیا نہ کھینچنی تھی تمہیں سطح آب کی چادر کبھی کا گھات میں بیٹھا بھنور نکل آیا برہنگی کو تماشا بھی دردناک ملا بدن کے رنگ جب اترے کھنڈر نکل آیا وہ ایک ابر تو بجلی سے رات بھر لڑتا ہوا کے میان سے خنجر مگر نکل ...

    مزید پڑھیے

    باد شمال چلنے لگی انگ انگ میں

    باد شمال چلنے لگی انگ انگ میں لپٹا ہے کون مجھ سے یہ پت جھڑ کے رنگ میں خواہش کے کاروبار سے بچنا محال ہے اترے گا تو بھی ساتھ مرے اس سرنگ میں میں آندھیوں میں ہاتھ بھی پکڑوں ترا تو کیا اک شاخ بے سپر ہوں ہواؤں کی جنگ میں رانجھاؔ میں عہد نو کا قبیلوں میں بٹ گیا تو ہیرؔ بن کے پی نہ سکی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں یوں برسیں پیراہن بھیگ گیا

    آنکھیں یوں برسیں پیراہن بھیگ گیا تیرے دھیان میں سارا ساون بھیگ گیا خشک محاذو بڑھ کے مجھے سلامی دو میرے لہو کی چھینٹوں سے رن بھیگ گیا تم نے مے پی چور چور میں نشے میں کس نے نچوڑا کس کا دامن بھیگ گیا کیا نمناک ہنسی دیوار و در پر تھی بچا کھچا سب رنگ و روغن بھیگ گیا سجنی کی آنکھوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5