سیاہ درد کا یہ سائبان گر جائے

سیاہ درد کا یہ سائبان گر جائے
ہمیں پہ ٹوٹ کے کاش آسمان گر جائے


خرابۂ دل تنہا نہ دیکھا جائے گا
ہمیں مکیں ہیں تو ہم پر مکان گر جائے


میں اس لرزتی سی دیوار دل کا نوحہ ہوں
جو کہتے کہتے کوئی داستان گر جائے


سنبھل سنبھل کے اٹھا بار بیکسی کا پہاڑ
ترے جگر پہ نہ سر کی چٹان گر جائے


نہ ایسے لونگ گھما ناک میں حسیں مٹیار
جو ہل چلاتے ہیں کوئی کسان گر جائے


دعائے نیم شبی اور یقین بے عصری
کہ جیسے تیر سے پہلے کمان گر جائے


مصورؔ ایسی ہوئی تنگ یہ زمیں ہم پر
بڑھیں جدھر بھی وہیں آسمان گر جائے