میں آندھی میں ریزہ ریزہ اک پھول چن رہا ہوں

میں آندھی میں ریزہ ریزہ اک پھول چن رہا ہوں
ڈرا ڈرا سا ہوا کی سانسوں کو سن رہا ہوں


وہ دونوں تو ربط باہمی سے جڑے ہوئے تھے
میں کیوں رقابت کے اس جہنم میں بھن رہا ہوں


پڑوسیوں کے تمام مفروضے سچ ہوئے ہیں
میں بے ثمر سوچوں کی ذہانت کو دھن رہا ہوں


کہر میں گم سم سماعتو تم گواہ رہنا
میں ایک دیوار گریہ ہر رات چن رہا ہوں


مل ایسے مجھ سے گمان ہو لا تعلقی کا
میں دوستی کے لیے بہت بد شگن رہا ہوں