Muneer Saifi

منیر سیفی

منیر سیفی کی غزل

    امید ٹوٹی ہوئی خاک داں میں روشن ہے

    امید ٹوٹی ہوئی خاک داں میں روشن ہے کوئی چراغ تو دل کے مکاں میں روشن ہے سنہری دھوپ کا پتہ خزاں میں روشن ہے کہ آئنہ کوئی ابر رواں میں روشن ہے جنوں ہمارا مکاں لا مکاں میں روشن ہے ہماری گرد سفر آسماں میں روشن ہے قدم قدم پہ ہے اب زینۂ زوال تو کیا سر غرور ہمارا جہاں میں روشن ہے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    پھر وہی بات ہو گئی ہوگی

    پھر وہی بات ہو گئی ہوگی شاہ کو مات ہو گئی ہوگی مل گئے ہوں گے دونوں وقت گلے اور پھر رات ہو گئی ہوگی چھا گئے ہوں گے یاد کے بادل کھل کے برسات ہو گئی ہوگی تیرگی نے چھڑا لیا دامن چاندنی رات ہو گئی ہوگی خوشبوئیں آئی ہیں لفافے میں نفی اثبات ہو گئی ہوگی جال کیوں بن رہی ہے خاموشی پھر ...

    مزید پڑھیے

    شب وصال طلوع آفتاب کیسے ہوا

    شب وصال طلوع آفتاب کیسے ہوا زمیں پہ اتنا بڑا انقلاب کیسے ہوا ستارہ موئے بدن رخ گلاب کیسے ہوا تمہارا جسم ہوس کی کتاب کیسے ہوا لبوں سے کام برش کا لیا گیا ہوگا کہ انگ انگ ترا مہر تاب کیسے ہوا ضرور لڑکیاں پانی میں تیرتی ہوں گی نہیں تو سارا سمندر شراب کیسے ہوا کہاں سے آ گئے خوشیوں ...

    مزید پڑھیے

    ہواؤں کا جو شہ پر بولتا ہے

    ہواؤں کا جو شہ پر بولتا ہے ہمارے گھر کا چھپر بولتا ہے وہی منظر بہ منظر بولتا ہے غزل چہرہ بدن بھر بولتا ہے فلک صحرا سمندر بولتا ہے طلسم خواب شب بھر بولتا ہے کئی فاقوں کا مظہر بولتا ہے شکم‌‌ پرور جو پتھر بولتا ہے خموشی اوڑھ لیتا ہے فلک بھر کبھی وہ شخص اکثر بولتا ہے کبھی کرتے ...

    مزید پڑھیے

    دشت در دشت چمکتا رہا دریا کیسا

    دشت در دشت چمکتا رہا دریا کیسا تجھ کو دھوکہ ہوا اے دیدۂ بینا کیسا جگمگاتے ہوئے شہروں کو بھلا کیا معلوم چہچہاتا ہے درختوں پہ سویرا کیسا دوستو چھاؤں گھنی دیکھ کے ٹھہرا نہ کرو بھاگتے ابر کے ٹکڑے کا بھروسا کیسا کربلا گھیر کے بیٹھی ہیں یزیدی فوجیں بالمقابل ہے حسین آج اکیلا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ساعت رنگینیٔ افکار رہے گی

    یہ ساعت رنگینیٔ افکار رہے گی تا عمر یوں ہی گرمئ بازار ہے گی خوشبوئے حدیث لب و رخسار رہے گی کل اتنی جواں زلف شب تار رہے گی دیوانگی جو بے در و دیوار رہے گی گلیوں میں تو زنجیر کی جھنکار رہے گی چھت کاغذی مٹی کی یہ دیوار رہے گی بارش کی عنایت تو لگاتار رہے گی دنیا میں یوں ہی رونق ...

    مزید پڑھیے

    جو بھیگی رات تو آسیب کے لشکر نکل آئے

    جو بھیگی رات تو آسیب کے لشکر نکل آئے کسی دیوار سے آنکھیں کسی سے سر نکل آئے چھٹی جو دھند تو کتنے ہی صورت گر نکل آئے کہ منظر کے پس منظر کئی منظر نکل آئے سلگتی ریت پھولوں کی طرح بستر نکل آئے بہت ممکن ہے صحرا میں بھی کوئی گھر نکل آئے اگیں ویرانیاں کمرے میں چھت میں در نکل آئے مری ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت بھر ضرورت چاہتا ہوں

    ضرورت بھر ضرورت چاہتا ہوں پرندوں جیسی عادت چاہتا ہوں گھٹن ہوتی ہے دوہری شخصیت سے دل آئینے کی صورت چاہتا ہوں بہت کمزور بوڑھا آسماں ہے کوئی مضبوط سی چھت چاہتا ہوں فضا گھر کی مرے لائق نہیں ہے سمندر دشت پربت چاہتا ہوں مرا ہر پل پولس افسر ہے سیفیؔ غزل کہنے کی فرصت چاہتا ہوں

    مزید پڑھیے

    وفا کا تانا بانا ڈھونڈھتا ہے

    وفا کا تانا بانا ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کیا دوانہ ڈھونڈھتا ہے ہوس اس کی فلک سے بھی ہے اونچی وہ تاروں کا خزانہ ڈھونڈھتا ہے گھنی چھاؤں پکڑ لیتی ہے پاؤں مسافر دل ٹھکانا ڈھونڈھتا ہے کسی کے سامنے وہ سر جھکے کیا جو تیرا آستانہ ڈھونڈھتا ہے اڑے پنچھی خلا میں جتنا اونچا زمیں پر آب و ...

    مزید پڑھیے

    ہواؤں سے الجھے شجر رات بھر

    ہواؤں سے الجھے شجر رات بھر لرزتا رہا میرا گھر رات بھر ضرور اس میں ماضی کے آسیب ہیں سسکتا بہت ہے کھنڈر رات بھر میں گرتا ہوں بستر پہ جب ٹوٹ کر اداسی دباتی ہے سر رات بھر بلا اب مرے شہر میں آئے گی کہ روتا ہے اک جانور رات بھر اسے بھی مرا خوف ڈستا رہا مجھے بھی رہا اس کا ڈر رات بھر

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3