وفا کا تانا بانا ڈھونڈھتا ہے

وفا کا تانا بانا ڈھونڈھتا ہے
نہ جانے کیا دوانہ ڈھونڈھتا ہے


ہوس اس کی فلک سے بھی ہے اونچی
وہ تاروں کا خزانہ ڈھونڈھتا ہے


گھنی چھاؤں پکڑ لیتی ہے پاؤں
مسافر دل ٹھکانا ڈھونڈھتا ہے


کسی کے سامنے وہ سر جھکے کیا
جو تیرا آستانہ ڈھونڈھتا ہے


اڑے پنچھی خلا میں جتنا اونچا
زمیں پر آب و دانہ ڈھونڈھتا ہے


خرد سے ہوگی دل کی پاسبانی
کہ تیر دل نشانہ ڈھونڈھتا ہے


وہ دے دے کر مجھے ذہنی اذیت
بدن پر تازیانہ ڈھونڈھتا ہے


وہ اپنی ذات میں مدغم ہے سیفیؔ
اسے سارا زمانہ ڈھونڈھتا ہے