ضرورت بھر ضرورت چاہتا ہوں
ضرورت بھر ضرورت چاہتا ہوں
پرندوں جیسی عادت چاہتا ہوں
گھٹن ہوتی ہے دوہری شخصیت سے
دل آئینے کی صورت چاہتا ہوں
بہت کمزور بوڑھا آسماں ہے
کوئی مضبوط سی چھت چاہتا ہوں
فضا گھر کی مرے لائق نہیں ہے
سمندر دشت پربت چاہتا ہوں
مرا ہر پل پولس افسر ہے سیفیؔ
غزل کہنے کی فرصت چاہتا ہوں