Muneer Saifi

منیر سیفی

منیر سیفی کی غزل

    موسموں میں ہوئی ہے سازش پھر

    موسموں میں ہوئی ہے سازش پھر دھوپ میں ہو رہی ہے بارش پھر اب تو باقی ہے سمت ممنوعہ میرے تلووں میں جاگی خارش پھر ہر طرف ہے عجیب تاراجی دل میں آئی سپاہ دانش پھر رنگ و روغن بھی مسکرانے لگے خوش بہت ہے مری رہائش پھر آڑی ترچھی لکیریں روشن ہوں کچھ تو ہو صورت نگارش پھر دیکھیے کس طرف کو ...

    مزید پڑھیے

    مرا دل بھی معمہ ہو گیا ہے

    مرا دل بھی معمہ ہو گیا ہے بھری‌‌ محفل میں تنہا ہو گیا ہے بڑا آسان جینا ہو گیا ہے گراں پھر لمحہ لمحہ ہو گیا ہے جو روتا تھا مرے زخموں پہ یارو وہ آئینہ بھی اندھا ہو گیا ہے نظر آتا نہیں انسان کوئی ہمارا شہر صحرا ہو گیا ہے کوئی بھی شے قرینے سے نہیں ہے عجب دل کا گھروندا ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    طلب سے بھی کچھ اور زیادہ ملا

    طلب سے بھی کچھ اور زیادہ ملا بدن پر غموں کا لبادہ ملا مجھے ہر جگہ سرفرازی ملی کہ غم کا مجھے شاہزادہ ملا بہت سادگی اس کے بچپن میں تھی جوانی کا قصہ بھی سادہ ملا کہ بے ساز و سامان تھا اس لیے مجھے ہر سفر بے ارادہ ملا زمیں پر تو سو آسماں اوڑھ لے مکاں تجھ کو کتنا کشادہ ملا رگ سنگ جب ...

    مزید پڑھیے

    لب پہ حرف معتبر رکھتا ہے وہ

    لب پہ حرف معتبر رکھتا ہے وہ بات کرنے کا ہنر رکھتا ہے وہ ایک عالی شان گھر رکھتا ہے وہ پھر بھی خود کو در بدر رکھتا ہے وہ ایک اپنی ہی نہیں ہیں الجھنیں کتنے غم ہائے دگر رکھتا ہے وہ اڑ رہا ہے جو کھلے آکاش میں آنے والے کل کا ڈر رکھتا ہے وہ سر سے پا تک چیختی سناٹگی اپنے اندر اک کھنڈر ...

    مزید پڑھیے

    عقل کے جال میں پھنسی ہی نہیں

    عقل کے جال میں پھنسی ہی نہیں زندگی آج تک کھلی ہی نہیں مجھ میں جیتا رہا سدا کوئی زندگی اپنی میں نے جی ہی نہیں سخت اتنی انا کی تھی دیوار پھر کسی بھی طرح گری ہی نہیں میں نے دنیا سمیٹ لی تو کھلا کام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں چاند کے ساتھ ہو گئی رخصت جیسے وہ اس جہاں کی تھی ہی نہیں جس ...

    مزید پڑھیے

    سمندر دشت پر بت کاٹتی ہے

    سمندر دشت پر بت کاٹتی ہے مصیبت کو مصیبت کاٹتی ہے چھپاؤں سر تو کھل جاتا ہے پاؤں ضرورت کو ضرورت کاٹتی ہے زمیں کرتی ہے باتیں آسماں سے یہاں ہر شے کی قیمت کاٹتی ہے مزہ فٹپاتھ کا پوچھو نہ یارو امارت کی مجھے چھت کاٹتی ہے فقیری میں ہے اتنا لطف یارو کہ مجھ کو بادشاہت کاٹتی ہے غنیمت ...

    مزید پڑھیے

    شب میں سورج کو ہم نکالیں گے

    شب میں سورج کو ہم نکالیں گے پتھروں میں بھی جان ڈالیں گے ہم سفر کر چکے خلاؤں میں اب سمندر کو بھی کھنگالیں گے یہ پرندے ہیں میرے دل کی طرح جی جہاں چاہا گھر بنا لیں گے آنے دیں گے نہ جسم و جاں میں خزاں زخم ہر دم ہرا بھرا لیں گے درد و غم کے سوا بھلا سیفیؔ ہم فقیروں سے لوگ کیا لیں گے

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3