جو بھیگی رات تو آسیب کے لشکر نکل آئے
جو بھیگی رات تو آسیب کے لشکر نکل آئے
کسی دیوار سے آنکھیں کسی سے سر نکل آئے
چھٹی جو دھند تو کتنے ہی صورت گر نکل آئے
کہ منظر کے پس منظر کئی منظر نکل آئے
سلگتی ریت پھولوں کی طرح بستر نکل آئے
بہت ممکن ہے صحرا میں بھی کوئی گھر نکل آئے
اگیں ویرانیاں کمرے میں چھت میں در نکل آئے
مری دیوانگی کے پھر سے بال و پر نکل آئے
خموشی پھیل کر جنگل ہو اور پھر شاخ سرگوشی
مری تنہائیوں کی جھیل کے اوپر نکل آئے
کھڑی تھیں دونوں جانب نیل میں پانی کی دیواریں
کہ جو اہل عصا تھے بیچ سے ہو کر نکل آئے
جلن یادوں کی اس کے تن بدن میں ایسی روشن ہو
کہ وہ بارش میں کمرے سے کھلی چھت پر نکل آئے
کہیں رخنہ ضرور احباب کی سازش میں تھا سیفیؔ
کہ ہم پھر حلقۂ گرداب سے بچ کر نکل آئے