مجیب شہزر کی غزل

    سپنوں کی کھڑکی سے جھانکے گورے گورے تن کی دھوپ

    سپنوں کی کھڑکی سے جھانکے گورے گورے تن کی دھوپ رات گئے رنگ اور دکھائے تیرے سندر پن کی دھوپ جوبن تھوڑی دیر کا مہماں جوبن پر اترانا کیا پل دو پل میں ڈھل جائے گی یہ تیرے جوبن کی دھوپ آس کا ہر اک پنچھی اپنے گھر کی جانب لوٹ گیا دیواروں پر چڑھنے لگی ہے پھیلے ہوئے آنگن کی دھوپ تجھ بن ...

    مزید پڑھیے

    نور نگر میں جب دنیا کھو جاتی ہے

    نور نگر میں جب دنیا کھو جاتی ہے دھندلی دھندلی بینائی ہو جاتی ہے نکلے گی کچھ بات یقیناً نکلے گی سوچو شبنم گل پر کیوں رو جاتی ہے ہونے والا برسوں کام نہیں ہوتا پل دو پل میں انہونی ہو جاتی ہے بے بس آنکھیں راتوں جاگا کرتی ہیں جانے میری نیند کہاں سو جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    اب کے برس گلشن میں نہ جانے کیسی ہوا لہرائی ہے

    اب کے برس گلشن میں نہ جانے کیسی ہوا لہرائی ہے موسم موسم گرد آلودہ ساری فضا دھندلائی ہے مستقبل کے خواب سجائے اپنی اپنی آنکھوں میں سارے پڑوسی جاگ رہے ہیں اور ہمیں نیند آئی ہے کون کسے اب سر کرتا ہے وقت ہی یہ بتلائے گا ایک طرف ہے عزم مصمم ایک طرف دارائی ہے سطح زمیں کا ہر اک خطہ ڈوب ...

    مزید پڑھیے

    ہوا میں تیر چلانے سے فائدہ کیا ہے

    ہوا میں تیر چلانے سے فائدہ کیا ہے بنا شکار نشانے سے فائدہ کیا ہے کسی سخی کا یہاں کوئی در نہیں کھلتا یہاں صدائیں لگانے سے فائدہ کیا ہے تمہارے زخم ہیں مرہم تمہیں تلاش کرو کسی کو زخم دکھانے سے فائدہ کیا ہے یہ سوچتا ہوں زمانے سے کیا ملا مجھ کو یہ سوچتا ہوں زمانے سے فائدہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    جس نے بخشا ہے تجھ کو قلم زندگی

    جس نے بخشا ہے تجھ کو قلم زندگی اس کا احسان اس کا کرم زندگی آرزؤں کی بانہوں میں لے کر تجھے کب سے جھولا جھلاتے ہیں ہم زندگی رنج و غم سے نہ دامن بچا ہم سفر رنج و غم سے ہی ہے محترم زندگی کر کے اظہار غم بر سر انجمن کھو دیا تو نے اپنا بھرم زندگی سرد جذبوں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں ہو گئی جب ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ جس پہ تری مہربان ہوتی ہے

    نگاہ جس پہ تری مہربان ہوتی ہے زمیں زمیں نہیں وہ آسمان ہوتی ہے ہر ایک دل نہیں ہو سکتا درد کے قابل ہر ایک کھیت میں کب زعفران ہوتی ہے یہ جلتی دھوپ یہ لمبا سفر مگر سر پر کوئی بزرگ دعا سائبان ہوتی ہے ادھر امیر کے بیٹے کے خواب جاگتے ہیں ادھر غریب کی بیٹی جوان ہوتی ہے تم اس کا نام ...

    مزید پڑھیے

    جب مرے شہر کے دن رات سہانے ہوں گے

    جب مرے شہر کے دن رات سہانے ہوں گے وقت کب آئے گا کب ایسے زمانے ہوں گے آج کے دور میں جینے کی اگر ضد ہے تمہیں زندگی کے نئے آداب بنانے ہوں گے صرف اس شرط پہ بخشی گئیں نیندیں مجھ کو جاگتی آنکھوں میں کچھ خواب سجانے ہوں گے بھائی نے بھائی کے زخموں پہ دوا رکھی تھی آج کی بات نہ کر پچھلے ...

    مزید پڑھیے